روزہ افطار کرنے کا وقت
سوال : روزہ جلدی افطار کرنا چاہیے یا تاخیر سے قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا احکامات ہیں؟
جواب : ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ» [البقرة:187]
”روزہ رات تک پورا کرلو۔“
یعنی رات ہوتے ہی روزہ افطار کر دو، تاخیر مت کرو۔ رات (لیل) کی ابتدا غروب آفتاب سے ہوتی ہے۔
علامہ محمد بن یعقوب فیروزآبادی رقمطراز ہیں :
«الليل والليلاة من مغرب الشمس الي طلوع الفجر الصادق او الشمس» [القاموس المحيط 1364]
”رات غروب شمس سے لے کر فجر صادق کے طلوع ہونے تک یا طلوع شمس تک ہے۔“
علامہ ابن منظور الافریقی فرماتے ہیں :
«مبدئه من غروب الشمس» ؟ ”رات کی ابتدا غروبِ شمس سے ہے۔“ [لسان العرب 378/12، المعجم الأوسط 850]
ائمہ لغات کی توضیح سے معلوم ہوا کہ لیل کی ابتدا غروبِ آفتاب سے ہوتی ہے، لہٰذا جوں ہی سورج غروب ہو روزہ افطار کر لیا جائے، تاخیر نہ کی جائے کیونکہ تاخیر سے روزہ افطار کرنا یہود و نصاریٰ کا کام ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
«لا يزال الدين ظاهرا ما عجل الناس الفطر، لان اليهود و النصارى يؤخرون» [ابوداؤد، كتاب الصوم : باب ما يستحب من تعجيل الفطر 2353، ابن ماجه، كتاب الصيام : باب ما جاء فى تعجيل الافطار 1698، ابن خزيمة 2060، ابن حبان 889، حاكم 431/1]
”دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطاری کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ روزہ دیر سے کھولنا یہود و نصاریٰ کا کام ہے اور ان کے متبعین کا روزہ موجودہ دور میں بھی مسلمانوں سے دس یا پندرہ منٹ بعد افطار ہوتا ہے۔ کئی لوگ افطاری کے لیے سائرن کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور سائرن بھی غروبِ آفتاب کے بعد دیر سے بجایا جاتا ہے، اس کے بارے میں یاد رہے کہ عبادات کے لیے سائرن بجانا بھی یہود و نصاریٰ کا عمل ہے۔ اہلِ اسلام کے ساتھ اس عمل کا کوئی تعلق نہیں بلکہ غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی روزہ کھول دینا چاہیے :
«عن سهل بن سعد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر » [بخاري، كتاب الصوم : باب تعجيل الافطار 1957، مسلم، كتاب الصيام : باب فضل السحور 1098]
”سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تک لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے بھلائی سے رہیں گے۔“
«عن عمر رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا اقبل الليل من هاهنا، وادبر النهار من هاهنا، وغربت الشمس، فقد افطر الصائم» [بخاري، كتاب الصوم : باب متي يحل فطر الصائم 1954، مسلم، كتاب الصيام : 1100]
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب رات ادھر سے آجائے اور دن ادھر سے پیٹھ پھیر جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ کھول دے۔“
«عن سهل بن سعد رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تزال امتي علٰي سنتي ما لا تنتظر بفطرها النجوم» [موارد الظمآن 891]
”سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میری اُمت ہمیشہ میری سنت پر رہے گی جب تک روزے کی افطاری کے لیے ستاروں کا انتظار نہیں کرے گی۔“
مندرجہ بالا صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ افطاری کا وقت غروبِ آفتاب ہے، اس لیے روزہ سورج غروب ہوتے ہی افطار کرلیں، دیر نہ کریں۔