روزوں سے متعلق دیگر احکام و مسائل
تحریر: عمران ایوب لاہوری

دوران روزہ احتلام کا حکم
اگر روزے کی حالت میں کسی کو احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، کیونکہ شارع علیہ السلام نے اسے مفسد قرار نہیں دیا۔
[المحلى بالآثار: 335/4]
(شیخ ابن جبرین) اسی کے قائل ہیں ۔
[الفتاوى الإسلامية: 111/2]
(ابن بازؒ) انہوں نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔
[أيضا: 114/2]
روزے کی حالت میں انجیکشن لگوانا
دراصل ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور نہ ہی اسے کھانے پینے پر قیاس کرنا درست ہے کیونکہ یہ حلق کے ذریعے پیٹ تک نہیں پہنچتا بلکہ کسی اور ذریعے سے بھی پیٹ تک نہیں پہنچتا اور صرف جسم کے مسامات میں ہی سرایت کر جاتا ہے جیسا کہ سرمہ کے اثرات آنکھوں کے ذریعے سرایت کر کے بسا اوقات حلق تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی کے ذریعے غسل کرنے سے جسم میں تبدیلی ، روزے کی شدت میں کمی اور پانی کا جسم کے مسامات میں سرایت کر جانا ایک بدیہی امر ہے ، مزید یہ کہ اگر کوئی تمہ پاؤں کے تلووں میں ملے تو اس کی کڑواہٹ منہ تک محسوس کی جا سکتی ہے در آں حالیکہ ان تمام اشیاء میں سے کسی کے ساتھ بھی روزہ ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جاتا۔ لٰہذا انجیکشن میں بھی اصل جواز ہی ہے جب تک کہ ممانعت کی کوئی واضح دلیل نہ مل جائے ۔
تا ہم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ”ایسا ٹیکہ جس کا مقصد خوراک یا قوت کی فراہمی نہ ہو بلکہ صرف بیماری کا علاج ہو جائز ہے۔ (اس کے علاوہ نہیں)۔
[رمضان المبارك فضائل ، فوائد ، ثمرات: ص/ 45]
حیض یا نفاس شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أليس إذا حاضت المرأة لم تصل ولم تصم
”کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ۔“
[بخاري: 1951 ، كتاب الصوم: باب الحائض تترك الصوم والصلاة]
نیز نفاس والی عورت کا حکم بھی وہی ہے جو حائضہ کا ہے۔
دوران روزہ جھوٹ سے اجتناب لازم ہے
حدیث نبوی ہے کہ :
من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة فى أن يدع طعامه وشرابه
”جس شخص نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تواللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“
[بخاري: 1903 ، كتاب الصوم: باب من لم يدع قول الزور والعمل به]
لغو اور رفث سے اجتناب
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ إنما الصيام من اللغو والرفث ”روزه تو لغو (ہر بے فائدہ و بے ہودہ کام ) اور رفث (جنسی خواہشات پر مبنی حرکات اور کلام) سے بچنے کا نام ہے۔“
[صحيح ابن خزيمة: 1996 ، 242/3]
ایسے افعال سے نہ بچنے والوں کے متعلق ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
كم من صائم ليس له من صيامه إلا الظماعه
”کتنے ہی روزے دار ہیں جن کو سوائے پیاس کے روزہ رکھنے سے کچھ نہیں ملتا۔“
[جيد: المشكاة: 626/1 ، أحمد: 441/2 ، دارمي: 27/6 ، كتاب الرقائق: باب فى المحافظة على الصوم]
حالت جنابت میں روزہ رکھنا
حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا جائز ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
ان رسول الله كان يدركه الفجر وهو جنب من أهله ثم يغتسل ويصوم
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو (بعض اوقات ) اس حالت میں فجر ہو جاتی کہ آپ ہم بستری کرنے کی وجہ سے جنبی ہوتے (ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کھا لیتے ) پھر غسل کر کے روزہ رکھ لیتے ۔“
[بخاري: 1926 ، كتاب الصوم: باب الصائم يصبح جنبا ، مسلم: 1109]
دوران روزہ بیوی کا بوسہ لینا اور کلی کرنا
جائز ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی صحیح حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 2089 ، كتاب الصيام: باب القبلة للصائم ، أبو داود: 2385 ، احمد: 21/1 ، دارمي: 13/2 ، حاكم: 431/1 ، بيهقى: 261/4]
گرمی کی وجہ سے دوران روزہ غسل کرنا مسنون ہے
ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکها:
يصب الماء على رأسه من الحر وهو صائم
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ دار تھے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2072 ، كتاب الصيام: باب الصائم يصب عليه الماء ، أبو داود: 2365 ، أحمد: 475/3]
مبالغہ سے ناک میں پانی نہ چڑھائے
حدیث نبوی ہے کہ :
وبالغ فى الاستنشاق إلا أن تكون صائما
”ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو الا کہ تم روزے دار ہو (تو ایسا نہ کرو)۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 631 ، كتاب الصيام: باب فى كراهية مبالغة الاستنثاق للصائم ، ترمذي: 788 ، ابن ماجة: 407 ، أبو داود: 142/1 ، نسائي: 66/1 ، بيهقي: 50/1 ، حاكم: 147/1 ، ابن خزيمة: 168]
افطاری کے وقت دعا کرنا
ایک روایت میں ہے کہ :
ان للصائم عند فطره لدعوة ما ترد
”افطاری کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 387 ، كتاب الصيام: باب فى الصائم لاترد دعوته ، إرواء الغليل: 921 ، ابن ماجة: 1753]
روزہ کس چیز سے افطار کیا جائے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ کھولتے۔ اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 2065 ، كتاب الصيام: باب ما يفطر عليه ، أبو داود: 2356]
افطاری کی دعا
روزہ کھولتے وقت یہ الفاظ کہنے چاہییں:
اللهُمَّ إِنِّي لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَقْطَرْتُ
[أبو داود مرسلا ، شيخ البانيؒ بيان كرتے هيں كه يه حديث شواهد كي بنا پر قوي هو جاتي هے۔ المشكاة: 1994]
اس دعا میں یہ الفاظ:
اَللَّهُمَّ إِنِّي لَكَ صُمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَقْطَرُتْ
کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
کھانے سے فراغت کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے:
ذَهَبَ الظُّمَةُ وَابْتَلَتِ الْعُرْوَقَ وَلَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ
[حسن: صحيح أبو داود: 2066 ، كتاب الصيام: باب القول عند الإفطار ، أبو دواد: 2357]
روزہ کھلوانے کا اجر
حضرت زید بن خالد جھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من فطر صائما كان له مثل أجره غير أنه لا ينقص من أجر الصائم شيئا
”جس نے کسی روزے دار کا روزہ افطار کرایا اسے بھی اتنا اجر ملے گا جتنا اجر روزے دار کے لیے ہو گا اور روزے دار کے اجر سے کوئی چیز کم نہ ہو گی ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 647 ، كتاب الصوم: باب فضل من فطر صائما ، ترمذى: 807 ، ابن ماجة: 1746]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1