رمضان کے آخری جمعہ کو برصغیر پاک و ہند سمیت بہت سے علاقوں میں ’’جمعتہ الوداع‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن بعض لوگ خاص اہتمام کرتے ہیں، بڑی بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں، کبھی اسے بطور عید منایا جاتا ہے اور کچھ لوگ اس دن مخصوص نماز یا عبادت کو لازم سمجھتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق اس جمعہ کو ادھوری قضا نمازیں معاف ہوجانے کا ذریعہ بتایا جاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں قرآن و حدیث اور اہلِ علم کی آراء کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لیا گیا ہے۔
جمعتہ الوداع کی اصطلاح اور اس کی اصل
- اصطلاحِ شریعت میں ثابت نہیں:
عربی لغت اور شرعی مصادر (قرآن، حدیث اور آثارِ صحابہ) میں ’’جمعتہ الوداع‘‘ کی کوئی متعین تعبیر یا اصطلاح نہیں ملتی۔ یہ ایک خودساختہ نام ہے جسے مختلف ثقافتی و سماجی روایات نے رواج دیا۔ - خصوصی فضیلت کا دعویٰ:
اس آخری جمعہ کے بارے میں جس قدر فضیلت یا مخصوص اعمال منقول ہیں، محدثین نے واضح کیا ہے کہ اس کی کوئی مستند بنیاد احادیثِ نبویہ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ اس عنوان سے جتنی روایات ہیں، وہ یا تو انتہائی ضعیف ہیں یا موضوع (من گھڑت)۔
کیا جمعۂ آخر کو نبی کریم ﷺ نے کوئی خاص نام دیا؟
احادیث کی کتب (بخاری، مسلم، سنن اربعہ وغیرہ) اور ان کی شروح، نیز متقدمین و متاخرین محدثین و فقہاء کے ہاں تلاش کیا جائے تو:
- کسی صحیح روایت میں نہیں آتا کہ آپ ﷺ نے رمضان کے آخری جمعہ کو ’’جمعۃ الوداع‘‘ قرار دیا ہو۔
- خصوصی عبادات کی بھی کوئی صراحت نہیں۔
- صحابۂ کرام کے عمل میں بھی اس کو بطور تہوار منانا یا اس کے لیے الگ جماعتیں منعقد کرنا ثابت نہیں۔
’’جمعتہ الوداع‘‘ کہنے یا اسے منانے کا حکم
- مروجہ رواج: برصغیر سمیت کئی علاقوں میں رمضان کے آخری جمعہ کو غیرمعمولی اہمیت دے کر تہوار کی شکل دی جاتی ہے۔ بڑی مساجد میں پُروقار اجتماعات، ملاقاتیں، خصوصی خطبوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہی دن ’’یتیم جمعہ‘‘ بھی ہے، یا اسی دن میں عبادت کا ثواب دوچند ہوجاتا ہے۔
- حکمِ شرعی: جب یہ ثابت نہیں کہ نبی کریم ﷺ، صحابہ و تابعین یا ائمۂ سلف نے اسے ’’وداعی جمعہ‘‘ کی حیثیت سے منایا ہو، تو پھر اس دن کو مخصوص کرنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ ہر وہ کام جو دین میں نئے طریقے کے طور پر ایجاد کیا جائے اور اس پر ثواب و قربِ الٰہی کی امید باندھی جائے، وہ شرعی بدعت کہلاتا ہے۔
بدعت کی شرعی تعریف
اہلِ علم نے بدعت کی یہ تعریف کی ہے کہ:
“دین میں ایسا نیا اضافہ (طریقہ یا عمل) جسے شریعت کا حصہ سمجھ کر ثواب کی نیت کی جائے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل یا بنیاد نہ ہو۔”
پس جس طرح جمعہ کے بقیہ ایام کو ایک عام شرعی جمعہ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح رمضان کا آخری جمعہ بھی عام جمعوں ہی کی طرح ہے۔
ضعیف و موضوع روایات اور ان کا نتیجہ
بعض کمزور روایات میں ذکر ملتا ہے کہ:
- رمضان کے آخری جمعہ کو کسی مخصوص تعداد میں رکعات پڑھ لی جائیں تو قضا نمازوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
- اس دن خاص طریقے سے نوافل ادا کیے جائیں تو سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
علمائے حدیث کے بقول یہ سب باتیں موضوع یا شدید ضعیف روایات پر مبنی ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً:
- قضائے عمری یا صلاۃ الفائدہ (بعض علاقوں میں مشہور ایک خاص نماز):
اس کے بارے میں امام ابن عثیمین رحمہ اللہ نے صراحت کی کہ یہ بے اصل ہے، اس کی کوئی دلیل احادیث میں نہیں ملتی، لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے ادا کرنا بدعت ہے۔ - چھوٹی بڑی قضا نمازوں کی معافی:
یہ بھی موضوع حکایتوں پر مبنی ہے۔ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ فرائض کی قضا علیحدہ طریقے سے ادا کی جائے گی، اس طرح کسی ایک نماز سے برسوں کی قضا معاف ہونا قرآن و حدیث کے مزاج کے خلاف ہے۔
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا‘‘ والی حدیث کا مفہوم
بعض لوگ جریر بن عبداللہؓ کی روایت کردہ حدیث پیش کرتے ہیں:
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا اور لوگ اس پر عمل کرنے لگیں تو اُس کے اور اُن عمل کرنے والوں کے لیے (برابر) اجر ہوگا۔۔۔‘‘ (صحيح مسلم)
یہ دراصل کسی نئی بدعت ایجاد کرنے کی دلیل نہیں۔ حدیث کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ صحابہ کرام کے آنے پر نبی ﷺ نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی اور ایک انصاری نے سب سے پہلے صدقہ کیا۔ اس طرح اُس نے سنتِ صدقہ کا احیا کیا جسے لوگ (سستی ترک کرکے) دوبارہ کرنے لگے۔ حدیث میں اس ’’اچھے طریقے‘‘ سے مراد نئی شریعت گھڑنا نہیں بلکہ پہلے سے موجود شرعی حکم (صدقہ) کا احیا یا ترویج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے نبی ﷺ نے یا قرآن نے جائز قرار دیا، اگر کوئی بھلا شخص اسے نیک نیتی سے پھر زندہ کرے اور لوگ اس کی تقلید میں عمل کرنے لگیں، تو اس کے لیے اضافی اجر ہوگا۔
برعکس اس کے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرنا (جو قرآن و سنت میں ثابت نہ ہو)، شرعی بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
دلائل کا خلاصہ
- قرآن کی تکمیل اور دین کا مکمل ہونا
اللہ تعالیٰ سورۃ المائدۃ میں ارشاد فرماتے ہیں:اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
یعنی دین کو مکمل کر دیا گیا۔ اب کوئی نئے احکام اور نئی عیدیں یا نئے مذہبی تہوار ایجاد کرنے کی گنجائش نہیں بچتی۔
- بدعت کی مذمت
رسول اللہ ﷺ خطبات میں بار بار فرماتے تھے:’’ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔‘‘
(سنن نسائی، ابو داود، ابن ماجہ وغیرہ) - نیا کام مردود
آپ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز گھڑلی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
(صحیح بخاری و مسلم)
اس لیے رمضان کے آخری جمعہ کو شرعی تہوار کے طور پر منانا، مخصوص نام دے کر خصوصی عبادات رائج کرنا یا اس سے غیرمعمولی ثواب منسوب کرنا شرعاً درست نہیں۔
خلاصہ مضمون
جمعتہ الوداع کو کوئی خاص دینی یا شرعی حیثیت حاصل نہیں۔ یہ محض علاقائی و ثقافتی نام ہے۔ شرعی طور پر ہر جمعہ کی اپنی فضیلت ہے؛ اسے بڑے اجتماع اور خطبے کا دن بنایا گیا، مگر آخری جمعہ کے متعلق کوئی خصوصی حکم، حدیث یا فضیلت ہرگز ثابت نہیں۔ اگر کوئی مسلم معاشرہ اسے تہوار، عید یا مخصوص عبادت کا دن بنا لے تو یہ بدعت کے دائرے میں داخل ہوگا۔
البتہ رمضان کے اختتام پر عمومی طور پر عبادت اور تقویٰ کا رجحان بڑھ جاتا ہے، لیکن اس میں ’’آخری جمعہ‘‘ کا کوئی الگ ثواب یا مخصوص عمل سمجھنا نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں نہیں ملتا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اسلام کے مقرر کردہ احکام و عبادات کے مطابق تمام جمعوں اور دنوں میں اللہ کی بندگی کریں، اور ایسی بدعات سے اجتناب کریں جن کا شریعت میں ثبوت نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کے ظاہر و باطن فتنوں سے محفوظ رکھے اور خالصتاً قرآن و سنت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔