سوال : بعض لوگ رفع یدین کے خلاف ایک کتاب ”اخبار الفقھاء والمحدثین“ کا حوالہ پیش کر رہے ہیں۔
مثلاً غلام مصطفیٰ نوری بریلوی لکھتے ہیں کہ :
” آئیے ہم آپ کی خدمت میں وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں صریحاً یہ مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علی وسلم پہلے رکوع والا رفع یدین کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا یہ حدیث صحیح صریح مرفوع ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ امام حافظ ابوعبداللہ محمد بن حارث الخشنی القیرانی متوفی سنہ 321 ھجری اپنی کتاب اخبار الفقھاء و المحدثین کے صفحہ 214 پر سند صحیح سے مرفوعاً یہ حدیث نقل کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ :
ترجمہ : جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھے تو ہم رفع یدین کرتے تھے نماز کی ابتداء میں اور نماز کے اندر رکوع کے وقت اور جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رکوع والا رفع یدین چھوڑ دیا اور ابتداء کی رفع یدین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔
ناظرین گرامی قدر : یہ حدیث پاک رفع یدین عند الرکوع کے نسخ میں کتنی واضح ہے۔ پھر بھی اگر کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی ہے۔ “ [ تركِ رفع يدين ص 295، 291 طبع اول جون 2004ء مكتبه نوريه رضوعيه گلبرگ اے فيصل آباد ]
عرض ہے کہ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ تحقیق سے جواب دیں۔ جزا کم اللہ خیراً
الجواب :
جناب غلام مصطفیٰ نوری بریلوی صاحب کی پیش کردہ روایت کئی لحاظ سے موضوع اور باطل ہے۔
دلیل نمبر ➊
اخبار الفقھاء و المحدثین نامی کتاب کے شروع [ص5] میں اس کتاب کی کوئی سند مذکور نہیں ہے اور آخر میں لکھا ہوا ہے کہ : تم الكتاب و الحمدلله حق حمده وصلي الله عليٰ محمد و آله و كان ذالك فى شعبان من عام 483ه
یعنی : کتاب مکمل ہو گئی اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جیسا کہ اس کی تعریف کا حق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کی آل پر درود ہو۔ اور یہ (تکمیل ) شعبان 483 ھ میں ہوئی ہے۔ [ص 293]
اخبار الفقھاء کی تکمیل کرنے اور لکھنے والا کون ہے ؟ یہ معلوم نہیں، لہٰذا اس کتاب کا محمد بن حارث القیروانی کی کتاب ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ➋
اس کے راوی عثمان بن محمد کا تعین ثابت نہیں ہے۔
بغیر کسی دلیل کے اس سے عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک قبری مراد لینا غلط ہے۔
اس ابن مدرک سے محمد بن حارث القیروانی کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
◈ حافظ ذھبی لکھتے ہیں :
عثمان بن محمد بن خشيش القيرواني عن ابن غانم قاضي إفريقية، أظنه كان كذاباً ’’ عثمان بن محمد بن خشيش القيرواني، ابن غانم قاضي افريقية سے روایت کرتا ہے، میرا خیال ہے : یہ کذاب تھا۔ [المغني فى الضعفاء ج 2 ص 50 ت 4059]
عثمان بن محمد : کذاب، قیروانی ہے اور محمد بن حارث بھی قیروانی ہے لہٰذا ظاہر یہی ہوتا ہے کہ عثمان بن محمد سے یہاں مراد یہی کذاب ہے۔ یاد رہے کہ عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک کا ثقہ ہونا معلوم نہیں ہے۔
محمد بن الحارث القیروانی سے منسوب کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ :
قال خالد بن سعدـ عثمان بن محمد ممن عني بطلب العلم و درس المسائل و عقد الوثائق مع فضله و كان مفتي أهل موضعه توفي 320
خالد بن سعد نے کہا : عثمان بن محمد طلب علم پر توجہ دینے والوں میں سے ہے اس نے مسائل پڑھائے اور فضیلت کے ساتھ دستاویزیں لکھیں۔ وہ اپنے موضع (علاقے ) کا مفتی تھا، 320ھ کو فوت ہوا۔ [اخبار الفقهاء و المحدثين ص 212 ]
اس عبارت میں توثیق کا نام و نشان نہیں ہے۔
غلام رسول نوری بریلوی نے اس عبارت کا ترجمہ درج ذیل لکھا ہے :
” جناب خالد بن سعد نے فرمایا کہ عثمان بن محمد ان میں سے ہے جنہوں نے مجھ سے علم حاصل کیا ہے اور مسائل کا درس لیا ہے اور یہ پختہ عقد والے ہیں اور صاحب فضیلت ہیں اور اپنے موضع کے مفتی تھے۔ “ [تركِ رفع يدين ص 493 ]
دلیل نمبر ➌
عثمان بن سوادہ بن عباد کے حالات ”اخبار الفقھاء و المحدثین“ کے علاوہ اور کسی کتاب میں نہیں ملے۔ اخبار الفقھاء میں لکھا ہوا ہے کہ :
قال عثمان بن محمد قال عبيدالله بن يحيي كان عثمان بن سوادة ثقة مقبولاً عند القضاة والاحكام . . .
چونکہ عثمان بن محمد مجروح یا مجہول ہے، لہٰذا عبید اللہ بن یحیی سے یہ توثیق ثابت نہیں ہے۔
نتیجہ : عثمان بن سوادہ مجہول الحال ہے اس کی پیدائش اور وفات بھی نامعلوم ہے۔
دلیل نمبر ➍
عثمان بن سوادہ کی حفص بن میسرہ سے ملاقات اور معاصرت ثابت نہیں ہے۔ حفص کی وفات 181 ھ ہے۔
دلیل نمبر ➎
محمد بن حارث کی کتابوں میں ”اخبار القضاۃ و المحدثین“ ’’ کا نام تو ملتا ہے مگر ”اخبار الفقھاء و المحدثین“ کا نام نہیں ملتا دیکھئے الاکمال لابن ماکولا [3؍261] الانساب للسمعانی [2؍376]
ہمارے اس دور کے معاصرین میں سے عمر رضا کی لہ نے ”اخبار الفقھاء و المحدثین“ کا ذکر کیا ہے۔ [ معجم المؤلفين 3؍204 ]
اس طرح معاصر خیر الدین الزرکلی نے بھی اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ [الاعلام 6؍75]
جدید دور کے یہ حوالے اس کی قطعی دلیل نہیں ہیں کہ یہ کتاب محمد بن حارث کی ہی ہے۔ قدیم علماء نے اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
دلیل نمبر ➏
مخالفین رفع یدین جس روایت سے دلیل پکڑ رہے ہیں اس کے شروع میں لکھا ہوا ہے کہ :
وكان يحدث بحديث رواه مسنداً فى رفع اليدين وهو من غرائب الحديث وأراه من شواذها
اور وہ رفع یدین کے بارے میں ایک حدیث سند سے بیان کرتا تھا۔ یہ غریب حدیثوں میں سے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ شاذروایتوں میں سے ہے۔ [اخبار الفقهاء و المحدثين ص214 ]
یہ عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ شاذ روایت ضعیف ہوتی ہے۔
غلام مصطفیٰ نوری صاحب نے ”کمال دیانت“ سے کام لیتے ہوئے من شواذها کی جرح کو چھپا لیا ہے۔
ان دلائل کا تعلق سند کے ساتھ ہے۔ اب متن کا جائزہ پیش خدمت ہے۔
دلیل نمبر ➐
اس روایت کے متن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد رکوع والا رفع یدین چھوڑ دیا۔
جبکہ صحیح و مستند احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں رفع یدین کرتے تھے۔
❀ ابوقلابہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتے تو تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح مسلم 1؍168ح391 و صحيح بخاري1؍102 ح737 و نور العينين ص 83 ]
❀ مالک بن حویرث اللیثی رضی اللہ عنہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ منورہ میں) غزوہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے دیکھئے فتح الباری [ج2ص110ح628 ]
❀ وائل بن حجر الحضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [ صحيح مسلم ج 1ص173ح401و نور العينين ص 89 ]
◈ عینی حنفی لکھتے ہیں کہ :
وائل بن حجر أسلم فى المدينة فى سنة تسع من الهجرة
”اور وائل بن حجر مدینہ میں نو [9] ہجری کو مسلمان ہوئے تھے۔ “ [عمدة القاري ج 5ص 674 ]
9ھ میں جو وفود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے، ابن کثیر رحمہ اللہ الدمشقی نے ان میں وائل رضی اللہ عنہ کی آمد کا ذکر کیا ہے [البدايه و النهايه ج 5ص71ونور العينين ص90 ]
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفع یدین نہیں چھوڑا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اخبار الفقھاء والی روایت موضوع ہے۔
دلیل نمبر ➑
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه1؍344 ح694، 695 وسنده حسن، نور العينين ص 104 ]
یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری چار سالوں میں آپ کے ساتھ رہے ہیں۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔ [جزء رفع اليدين للبخاري بتحقيقي : 22و نور العينين ص 147 ]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس روایت مذکورہ میں شاگر اور امام ابوحنیفہ کے استاد عطاء بن ابی رباح بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔ [جزء رفع اليدين : 62 و سنده حسن ]
معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں رکوع والا رفع یدین متروک یا منسوخ بالکل نہیں ہوا تھا لہٰذا ”اخبار الفقھاء“ والی روایت جھوٹی روایت ہے۔
دلیل نمبر ➒
مشہور تابعی نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے وقت (چاروں مقامات پر ) رفع یدین کرتے تھے۔ [ صحيح بخاري 2؍102ح739و نور العينين ص 81 ]
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق رفع یدین منسوخ ہو جائے اور پھر بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ رفع یدین کرتے رہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں سب سے آگے تھے۔
دلیل نمبر ➓
❀ نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جس شخص کو دیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریاں سے مارتے تھے۔ [جزء رفع اليدين : 15و نور العينين ص 146و سنده صحيح ]
◈ علامہ نووی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
باسناده الصحيح عن نافع
”یعنی نافع تک اس کی سند صحیح ہے۔ “ [ المجموع شرح المذهب ج 3ص405 ]
یہ کس طرح ممکن ہے کہ رفع یدین بروایت ابن عمر منسوخ ہو جائے پھر اس کی ”منسوخیت“ کے بعد بھی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس نامعلوم و مجہول جاہل کو ماریں جو رفع یدین نہیں کرتا تھا۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
”کسی ایک صحابی سے رفع یدین کا نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔“ [ ديكهئے جزء رفع اليدين 40، 76، و المجموع للنووي3؍405 ونور العينين ص 151 ]
↰ معلوم ہوا ہے کہ رفع یدین نہ کرنے و الا آدمی۔ صحابہ کرام میں سے نہیں تھا۔ بلکہ کوئی مجہول و نامعلوم شخص ہے۔
خلاصۃ التحقیق :
ان دلائل سابقہ سے یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ ”اخبار الفقہاء و المحدثین“ والی روایت موضوع اور باطل ہے۔ لہٰذا غلام مصطفیٰ نوری بریلوی صاحب کا اسے ”حدیث صحیح“ کہنا جھوٹ اور مردود ہے۔ وما علينا الا البلاغ (21محرم 1426ھ)
ایک تبصرہ