رفع یدین سے متعلق سرکش گھوڑوں کی دموں والی حدیث
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مخالفین رفع الیدین کے دلائل اور ان کے جوابات

➊ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمایا:
مالي اراكم رافعي أيديـكـم كـأنها أذناب حيل شمس اسكنوا فى الصلاة
”کیا ہے مجھے کہ میں تمہیں رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ (تمہارے ہاتھ ) سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں ، نماز میں آرام کیا کرو۔“
[مسلم: 430 ، كتاب الصلاة: باب الأمر بالسكون فى الصلاة ، أبو داود: 1000]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
① اس حدیث میں یہ کہیں موجود نہیں ہے کہ یہ ممانعت رکوع والے رفع الیدین کے متعلق ہے۔
② اس حدیث کے ورود کا ایک خاص سبب ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی ہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”جب ہم سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ دونوں جانب اشارہ بھی کرتے“ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے ہاتھوں کو بدکے ہوئے گھوڑوں کی دموں کی مانند کیوں حرکت دیتے ہو ، تم میں سے کسی ایک کو تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر اپنے دائیں اور بائیں جانب (بیٹھے ہوئے ) بھائی کو سلام کرے۔“
[مسلم: 431 ، كتاب الصلاة: باب الأمر بالسكون فى الصلاة ، أحمد: 86/5 ، أبو داود: 998 ، أبو عوانة: 238/2]
③ اگر رفع الیدین نماز میں سکون کے منافی ہے تو مخالفین (یعنی احناف) وتروں میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں۔
➋ امام علقمہؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
الا أصلى بكم صلاة رسول الله؟ قال: فصلي فلم يرفع يديه إلا مرة
”میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کے نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ رفع الیدین کیا ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 683 ، كتاب الصلاة: باب من لم يذكر الرفع عند الركوع ، أبو داود: 738 ، ترمذي: 257 ، أحمد: 388/1 ، نسائي: 182/2 ، شرح معاني الآثار: 224/1 ، شيخ احمد شاكرؒ نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على الترمذي: 41/2 ، شيخ شعيب آرنووط ، شيخ عبد القادر أرنؤوط اور زهير شاوليش وغيره نے بهي اسے صحيح كها هے۔ التعليق على شرح السنة: 24/3]
(ابن حزمؒ) یہ خبر صحیح ہے اور اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو ہر (مرتبہ رکوع سے) اٹھتے اور جھکتے وقت رفع الیدین فرض ہوتا۔ لیکن چونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خبر صحیح ہے اس لیے ہمیں یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین صرف سنت و مستحب ہے۔
[المحلى: 4/3]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
① یہ حدیث دیگر متعدد صحیح و متواتر احادیث کے خلاف ہے لٰہذا قابل حجت نہیں۔
② صحابی کا عمل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں حجت نہیں۔
③ اگرچہ حدیث صحیح ہے لیکن اس سے رفع الیدین کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ صرف تاکید میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے وگرنہ مشروعیت تو دیگر کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➌ امام علقمہؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی۔
فلم يرفعوا أيديهم إلا عند الاستفتاح
”تو ان سب نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا ۔“
[دار قطني: 295/1 ، بيهقي: 79/2]
اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابن جوزیؒ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ اور امام دارقطنیؒ اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں محمد بن جابر راوی عن حماد ضعیف ہے۔ اور امام بیہقیؒ نے بھی اسے مرسل و موقوف کہا ہے۔
➍ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھاتے وثم لا يعود ”پھر دوبارہ ایسا (یعنی رفع الیدین) نہیں کرتے تھے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 153 ، 154 ، 155 ، 156 ، كتاب الصلاة: باب من لم يذكر الرفع عند الركوع ، شرح معاني الآثار: 224/1 ، دارقطني: 294/1 ، بيهقي: 76/2 ، يه حديث شريف راوي كي وجه سے ضعيف هے۔ شيخ البانيؒ نے اس حديث اور اس معنى كي تمام ديگر روايات كو ضعيف كها هے۔]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ حفاظ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں ثم لم بعد کے الفاظ مدرج ہیں ۔
[نيل الأوطار: 695/1]
➎ ابتدائے اسلام میں بعض لوگ نماز پڑھتے ہوئے بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے اس لیے رفع الیدین کا حکم دیا گیا جو کہ بعد میں منسوخ ہو گیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بغلوں میں بت چھپانے والا دعوی بلا دلیل ہے کہ جو کسی صحیح حدیث واثر سے تو در کنار کسی ضعیف و من گھڑت روایت سے بھی ثابت نہیں۔
معلوم ہوا کہ جن احادیث و روایات سے رفع الیدین کی مشروعیت کو رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ یا تو ضعیف و من گھڑت ہیں یا مبہم وغیر واضح ہیں لٰہذا چونکہ دیگر صحیح احادیث سے چاروں جگہوں میں رفع الیدین ثابت ہے اس لیے انہی پر عمل کیا جائے گا۔
(شوکانیؒ) چاروں جگہوں میں رفع الیدین کرنا مشروع و ثابت ہے۔
[السيل الجرار: 226/1 ، نيل الأوطار: 699/1]
(صدیق حسن خانؒ ) صحیح و ثابت روایات اور راجح و پسندیدہ آثار سے چاروں جگہوں میں رفع الیدین ثابت ہے۔
[الروضة الندية: 262/1]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تحفة الأحوذي: 113/2]
(مولانا عبدالحیی لکھنوی حنفیؒ ) رفع الیدین منسوخ نہیں ہے۔
[التعليق الممجد: ص/ 89]
(سعودی مجلس افتاء) چاروں جگہوں میں رفع الیدین ثابت ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 233/1]
◈ مسئلہ رفع الیدین کی مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہے:
التحقيق الراسخ فى أن أحاديث رفع اليدين ليس لهانا سخ (حافظ محمد گوندلویؒ)
نور العينين فى مسئلة رفع اليدين (مولانا زبیر علی زئی حفظہ اللہ )
جزء رفع اليدين (امام بخاریؒ)
انسائيكلو پيڈيا آف اثبات رفع اليدين (مولانا خالد گھر جاکھی حفظہ اللہ )
➎ 12 مسائل (حکیم عبد الرحمن خلیق )

ایک دلچسپ واقعہ

امام زیلعیؒ جزء رفع اليدين للبخاري سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام ابن مبارکؒ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے نعمانؒ (یعنی امام ابو حنیفہؒ) کے ایک جانب نماز پڑھی تو میں نے رفع الیدین کیا۔ انہوں نے (نماز سے فراغت پر) مجھے کہا ، مجھے نماز میں ) خدشہ لاحق ہوا کہ تم اڑنے لگے ہو۔ امام ابن مبارکؒ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: جب میں پہلی مرتبہ (رفع الیدین کے ساتھ) نہیں اُڑا تو دوسری مرتبہ بھی نہیں اڑا۔ امام وکیعؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امام ابن مبارکؒ پر رحم فرمائیں وہ بڑے حاضر جواب تھے۔
[نصب الراية: 41731 ، تحفة الأحوذي: 113/2 – 114]

سجدوں میں رفع الیدین ثابت نہیں

ایک روایت میں ہے کہ ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدوں سے سر اٹھاتے تو ایسا یعنی رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔“
[مسلم: 390 ، كتاب الصلاة: باب استحباب رفع اليدين حذوا المنكبين]

رفع الیدین کرتے ہوئے انگلیوں کی کیفیت

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله إذا قام إلى الصلاة رفع يديه مدا
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھوں کو لمبا کر کے اٹھاتے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 199 ، صحيح أبو داود: 735 ، كتاب الصلاة: باب من لم يذكر الرفع عند الركوع التعليق على ابن خزيمة: 459 ، أحمد: 375/2 ، ترمذى: 240 ، أبو داود: 753 ، نسائي: 124/2]
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیاں (رفع الیدین کے وقت) نہ زیادہ کھلی ہوتی تھیں اور نہ ہی بہت زیادہ ملی ہوتی تھیں ۔
[ابن خزيمة: 459]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے