رفع الیدین سے متعلق 11 صحیح و مستند روایات

نماز میں رفع الیدین: ایک تفصیلی تحقیقی جائزہ

رفع الیدین کی فضیلت

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی نماز میں (اپنے ہاتھ سے) جو اشارہ کرتا ہے، اس کے بدلے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۶۸۲۳.)

نماز میں رفع الیدین کے چار مقامات

رفع الیدین یعنی دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانا نماز میں درج ذیل چار مواقع پر ثابت ہے:

❀ نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت

❀ رکوع میں جانے سے پہلے

❀ رکوع سے اٹھنے کے بعد

❀ دو رکعت پڑھ کر تیسری رکعت کی ابتدا میں

دلائل اور احادیثِ صحیحہ

➊ سیدنا عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ کی گواہی

فرماتے ہیں:
’’میں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ۲/۳۷ وقال رواتہ ثقات)

➋ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عمل

انہوں نے لوگوں کو نماز سکھاتے وقت قبلہ رخ ہو کر ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، تکبیر کہی، رکوع کیا، پھر رکوع سے اٹھے اور ہر بار رفع الیدین کیا۔
(السنن الکبری للبیہقی، فی الخلافیات۔ رجال اسنادہ معروفون۔ نصب الرایۃ ۱/۵۱۴، ۶۱۴)

➌ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت

"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے، رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور دو رکعت کے بعد کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔”
(أبو داود: ۴۴۷، ابن ماجہ: ۴۶۸، ترمذی: ۳۲۴۳ – حسن صحیح)

➍ سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت

"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آغاز، رکوع سے پہلے اور بعد، تین مقامات پر ہاتھ اٹھاتے تھے، مگر سجدے میں نہیں۔”
(بخاری: ۵۳۷، مسلم: ۰۹۳)
انہوں نے خود بھی انہی مقامات پر رفع الیدین کیا اور فرمایا:
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی کرتے تھے۔”
(بخاری: ۹۳۷، مسلم: ۰۹۳)

➎ امام بخاری کے استاد علی بن مدینی رحمہ اللہ کا قول

"حدیث ابن عمر کی بنیاد پر مسلمانوں پر رفع الیدین کرنا واجب ہے۔”
(التلخیص الحبیر، ج ۱، ص ۸۱۲، حاشیہ صحیح البخاری)

➏ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت

وہ شروع نماز، رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے اور فرماتے:
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔”
(بخاری: ۷۳۷، مسلم: ۱۹۳)

➐ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا مشاہدہ

"میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے آغاز میں، رکوع سے قبل اور بعد میں ہاتھ اٹھاتے دیکھا۔”
(مسلم، الصلاۃ، باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسری: ۱۰۴)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ۹ یا ۱۰ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس سے واضح ہے کہ رفع الیدین آخری وقت تک جاری تھا اور اس کی منسوخی کی کوئی دلیل نہیں۔

➑ سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی جامع روایت

انہوں نے دس صحابہ کے مجمع میں بیان کیا:
"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آغاز، رکوع کے وقت، رکوع سے اٹھنے اور دو رکعت کے بعد کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔”
تمام صحابہ نے تصدیق کی:
’’تم سچ بیان کرتے ہو، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔‘‘
(ابو داود: ۰۳۷، ترمذی: ۴۰۳ – حسن صحیح)
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں:
"میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا کہ جو شخص یہ حدیث سننے کے باوجود رکوع اور رکوع کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہو گی۔”
(صحیح ابن خزیمہ، ۹۸۵)

➒ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی ہدایت

انہوں نے فرمایا:
"کیا میں تمہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟”
پھر انہوں نے نماز پڑھی، اور ہر بار رفع الیدین کیا: آغاز میں، رکوع میں، اور رکوع سے اٹھ کر۔
(دارقطنی ۱/۲۹۲، التلخیص الحبیر ۱/۹۱۲ – راوی ثقہ)

➓ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

"رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آغاز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے۔”
(ابن ماجہ: ۰۶۸، صحیح ابن خزیمہ ۱/۴۴۳، حدیث ۴۹۶)

۱۱. سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ کا عمل

"جب نماز شروع کرتے، رکوع کرتے یا رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور کہتے: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔”
(مسند السراج: ۲۹، ابن ماجہ: ۸۶۸، ابن حجر: راوی ثقہ)

نتیجہ

تمام بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ رفع الیدین نماز میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس پر صحابہ کرام کا بھی مسلسل عمل رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کی واضح احادیث موجود ہیں، بلکہ متعدد صحابہ کرام نے متفقہ طور پر اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ اس کا انکار یا ترک کوئی شرعی بنیاد نہیں رکھتا۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1