رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا انجام
(وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا)
اور اس دن ( کو یاد کرو) جب ظالم اپنے دونوں ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا:
ہائے افسوس! میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔
(الفرقان : ۲۷)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اُس ظالم شخص کی ندامت کے متعلق خبر دی ہے ، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کھلے حق سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کے سوا دوسری راہوں کو اختیار کر لیا تھا۔ قیامت والے دن یہ بہت ہی نادم ہو گا لیکن اُس دن کی ندامت اسے کوئی فائدہ نہیں دے گی اور حسرت و افسوس کے ساتھ یہ اپنے ہاتھ چبائے گا۔ اس کا سبب نزول عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں ہو یا کسی اور کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہرایسے ظالم کو شامل ہے جو اطاعت واتباع سے انحراف و روگردانی کرتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
(يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا ﴿٦٦﴾ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧﴾)
(الاحزاب : ۶۶ – ۶۷)
پس ہر ظالم قیامت کے دن انتہائی زیادہ نادم ہوگا اور اپنے ہاتھوں کو (يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴿٢٨﴾) کہتے ہوئے چبائے گا۔
(تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۵۹۴-۵۹۵)
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والا راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی راستہ ہے،جیسا کہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔
(دیکھئے تفسیر الطبری ج ۸ ص ۱۰۵)
یعنی جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اپنایا تو وہ قیامت والے دن ظالم ہوگا اور اپنے ہاتھوں کو حسرت وافسوں کی وجہ سے چبائے گا۔