ہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال درحقیقت اللہ کا دین ہیں۔
حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا:
"انّی قد ترکت فیکم ما إن اعتصمتم بہ فلن تضلّوا أبدا: کتاب اللّٰہ وسنّۃ نبیّہ”
"یقینا میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، اگر تم انہیں تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 1/93، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کے راوی عبداللہ بن عبداللہ بن اویس بن مالک کو جمہور علما نے "حسن الحدیث” قرار دیا ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وثّقہ الأکثرون، واحتجّوا بہ”
"اکثر محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور ان کی روایت سے استدلال لیا ہے۔”
(شرح صحیح مسلم: 2/197، تحت حدیث: 2094)
اسی طرح اسماعیل بن ابی اویس کو بھی جمہور نے "ثقہ” قرار دیا ہے۔
فرمانِ الٰہی: رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ”
"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔”
(النساء: 4/80)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار اور طریقہ حق و باطل کی کسوٹی
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (م 198ھ) فرماتے تھے:
"إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ھو المیزان الأکبر، فعلیہ تعرض الأشیاء علی خلقہ وسیرتہ وھدیہ، فما وافقھا فھو الحقّ وما خالفھا فھو الباطل”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی کسوٹی ہیں، لہٰذا آپ کے اخلاق، سیرت، اور طریقہ پر ہر چیز پرکھی جائے۔ جو چیز اس کے موافق ہو، وہ حق ہے اور جو مخالف ہو، وہ باطل ہے۔”
(الجامع لاخلاق الراوی للخطیب: 8، وسندہ، صحیحٌ)
اللہ کا فرمان: مومنوں کا طرز عمل
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا دُعُوْا إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ أَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ”
"جب مؤمنوں کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ یہی لوگ کامیاب ہیں۔”
(النور: 24/51)
رسول کی مخالفت پر تنبیہ
اللہ نے خبردار کیا:
"فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ”
"جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی بڑا فتنہ یا دردناک عذاب نہ آجائے۔”
(النور: 24/63)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالیٰ (فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہ) سے مراد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اور وہ آپ کا راستہ، منہج، طریقہ اور آپ کی شریعت ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے ساتھ ہی (سب لوگوں کے) اقوال و افعال پرکھے جاتے ہیں۔ جو قول و فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو، اسے قبول کیا جائے گا اور جو ان کے خلاف ہو، اسے ردّ کیا جائے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔”
(تفسیر ابن کثیر: 5/578، بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فیصلے کی قبولیت
اللہ کا فرمان ہے:
"فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا”
"(اے نبی!) تیرے رب کی قسم! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک وہ آپ کو اپنے جھگڑوں میں فیصل نہ مان لیں، پھر وہ آپ کے فیصلے پر اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے دل سے تسلیم کرلیں۔”
(النساء: 4/65)
اطاعت میں مکمل تسلیم و رضا
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ اس آیت کی توضیح میں فرماتے ہیں:
"یہ آیت اس شخص کے لیے کافی ہے، جو عقل مند اور ہوشیار ہو، نیز اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ یقین رکھے کہ یہ وعدہ اس کے رب نے اس سے لیا ہے اور یہ وصیت اس کی طرف سے اس پر لاگو ہے۔”
(الاحکام لابن حزم: 1/111)
اختلاف کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجوع
اللہ کا فرمان ہے:
"فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا”
"اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو، تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہترین اور بہتر انجام والا کام ہے۔”
(النساء: 59)
علم و یقین کی بنیاد: کتاب و سنت
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ آیات اس شخص کی گمراہی اور نفاق پر دلیل ہیں جو کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور سے فیصلہ کرواتا ہے۔”
(درء تعارض العقل والنقل: 1/58)
رسول کی اطاعت میں کامل تسلیم اور عقلیات کا مقام
علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکمل تسلیم و رضا اور آپ کے احکام کے لیے کامل اطاعت فرض ہے، بغیر اس کے کہ اسے اپنے خیالات یا لوگوں کی آراء پر فوقیت دی جائے۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ: ص 160)
ایمان اور اجتماعی معاملات میں نبی کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"إِنّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَإِذَا کَانُوْا مَعَہ، عَلٰی أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَأْذِنُوْہُ”
"مؤمن تو وہ ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں، اور جب وہ نبی کے ساتھ کسی اجتماعی معاملے میں ہوتے ہیں تو اس سے اجازت لیے بغیر نہیں جاتے۔”
(النور: 24/62)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جب ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مؤمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہوئے آپ کی اجازت کے بغیر کہیں نہ جائیں، تو یہ بھی ایمان کا لازمی جزو ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کسی علمی بات یا نظریہ کی طرف بھی نہ جائیں۔ اور یہ اجازت وہی ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے معلوم ہو جاتی ہے۔”
(اعلام الموقعین عن رب العالمین: 1/51-52)
شریعت کی پیروی کا حکم
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ أَھْوَاءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ”
"پھر ہم نے آپ کو دین کے کھلے راستے پر قائم کر دیا، آپ اس کی پیروی کریں اور جاہل لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔”
(الجاثیۃ: 45/18)
حدیث رسول کی اہمیت
امام اوزاعی رحمہ اللہ (م 157ھ) نے مخلد بن حسین سے فرمایا:
"اے ابو محمد! جب تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث پہنچے، تو کسی اور بات کا نہ سوچو اور نہ ہی اس کے علاوہ کچھ کہو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف سے پیغام پہنچاتے تھے۔”
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب: 1/149، وسندہ، حسنٌ)
سنت رسول کی پیروی میں اختلاف
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:
"آپ نے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے!”
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا، "اے عروہ! کیا بات ہے؟”
عروہ نے کہا، "آپ ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں عمرہ کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ ان دنوں میں عمرہ نہیں ہوتا۔”
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا، "کیا آپ اپنی والدہ سے اس بارے میں سوال نہیں کرتے؟”
عروہ نے کہا، "ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے یہ عمل نہیں کیا۔”
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، "اللہ کی قسم! یہی چیز تمہیں ہلاک کر رہی ہے۔ میرے خیال میں اللہ تم پر عذاب نازل کرے گا۔ میں تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں، اور تم ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی بات میرے سامنے لاتے ہو؟”
عروہ نے جواب دیا، "اللہ کی قسم! وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زیادہ جاننے والے اور اس کی پیروی کرنے والے تھے۔”
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی: 1/145، وسندہ، صحیحٌ)
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس واقعے کے بعد لکھتے ہیں:
"سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما واقعی اسی طرح تھے، جیسا کہ عروہ نے بیان کیا، مگر یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت ہونے کے باوجود کسی کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے اسے ترک کر دے۔”
رائے کی بجائے سنت کی پیروی
امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی موجودگی میں کسی کی کوئی رائے معتبر نہیں۔”
(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمۃ: 9335، وسندہ، صحیحٌ)
امام مالک رحمہ اللہ کی تاکید
امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:
"جب بھی کوئی سخت جھگڑالو شخص ہمارے پاس آتا ہے، وہ ہم سے اس چیز کو رد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جسے جبریل علیہ السلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کر آئے تھے۔”
(شرف اصحاب الحدیث للخطیب: 1، وسندہ، صحیحٌ)
شریعت پر قیاس کی فوقیت نہیں
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کرتی ہے، وہ باطل ہے۔ حدیث رسول کے مقابلے میں کوئی رائے یا قیاس قائم نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ذریعے ہر عذر کو ختم کر دیا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کے ساتھ کسی کے لیے کوئی اور حکم یا ممانعت قابل قبول نہیں۔”
(کتاب الام للشافعی: 2/193)
کتاب و سنت کو رد کرنے والوں کا رویہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ بات معلوم ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو نہیں پائیں گے جو اپنے قول کے ساتھ کتاب و سنت کی نصوص کو رد کرتا ہے، مگر وہ اپنے قول کے خلاف آنے والی بات کو ناپسند کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی اور یہ حدیث نہ آتی۔ اگر اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اس آیت کو مصحف سے مٹا دیتا۔”
(درء تعارض العقل والنقل: 5/217)
علمائے کرام کے اقوال کی بنیاد پر عمل
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جس نے علمائے کرام کے اقوال کو نصوص پر پیش کیا اور ان کے مطابق ان اقوال کا وزن کیا، اور جس قول نے نصوص کی مخالفت کی، اس کی اس نے بھی مخالفت کی، تو اس نے علمائے کرام کے اقوال کو بے وقعت نہیں کیا بلکہ ان کی پیروی کی۔ کیونکہ علمائے کرام نے بھی یہی حکم دیا تھا۔ لہٰذا ان کا حقیقی پیروکار وہ ہے جو ان کی وصیت پر عمل کرتا ہے، نہ کہ وہ جو ان کی مخالفت کرتا ہے۔ ان علمائے کرام کی اس قول میں مخالفت جو نصوص کے خلاف ہو، وہ اس سے بہتر ہے کہ نص کو ان کے اقوال پر مقدم کرنے والے کلی اصول میں ان کی مخالفت کی جائے۔ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک عالم کی ہر بات میں اس کی تقلید کرنا اور اس کے علم سے مدد حاصل کرنے میں کیا فرق ہے۔ پہلا شخص عالم کے قول کو بغیر تحقیق کے لے لیتا ہے اور اسے اپنے گلے میں باندھ لیتا ہے، اسی لیے اسے تقلید کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا شخص عالم کے فہم سے مدد لیتا ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات تک پہنچ سکے۔”
(الروح لابن القیم: 264)