ذیل میں ابو عبداللہ مؤمل بن اسماعیل القرشی العدوی البصری نزیل مکہ کے بارے میں تفصیلی تحقیق پیش کی جارہی ہے۔ اس تحریر کا مقصد ان پر ہونے والی مختلف جرح و تعدیل کا جائزہ لینا اور صحیح رائے تک پہنچنا ہے۔ تمام حوالہ جات جوں کے توں درج کیے گئے ہیں تاکہ اصل مواد اور مراجع میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔
مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں بنیادی معلومات
کتبِ ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
- صحیح البخاری = (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح۷۰۸۳، تعلیقاً)
- سنن الترمذی = (ح۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
- سنن النسائی الصغریٰ = (ح۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
- سنن ابن ماجہ = (ح۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)
مؤمل بن اسماعیل پر کیے گئے جرح و تعدیل کے اقوال ذیل میں تفصیل سے پیش کیے جاتے ہیں۔
حصہ اوّل: مؤمل بن اسماعیل پر جرح کے اقوال
- ابو حاتم الرازی کا قول
"صدوق، شدید فی السنۃ، کثیر الخطا، یکتب حدیثہ”
(کتاب الجرح والتعدیل ۳۴۷/۸)
یعنی وہ سچے تھے، سنت کے معاملے میں سخت تھے لیکن ان سے بہت سی غلطیاں بھی واقع ہوگئیں۔ اس کے باوجود ان کی احادیث لکھی جاتی ہیں۔ - زکریا بن یحییٰ الساجی
"صدق، کثیر الخطا ولہ اوھام یطو ل ذکرھا”
(تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
صاحب تہذیب التہذیب (حافظ ابن حجر) اور امام الساجی (متوفی ۳۰۷ھ کما فی لسان المیزان ۴۸۸/۲) کے درمیان سند نہیں، لہٰذا یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے اصلاً ناقابلِ احتجاج ہے۔ - محمد بن نصر المروزی
"المؤمل اذا انفرد بحدیث وجب ان یتوقف ویثبت فیہ الانہ کان سیئ الحفظ کثیر الخطا”
(تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بھی بلا سند ہے اور جمہور کے مخالف ہونے کی بنا پر مردود قرار پاتا ہے۔ - یعقوب بن سفیان الفارسی کا قول
انہوں نے مؤمل کو ایک طرف تو سلیمان بن حرب کا توثیق کرنے والا کہا اور دوسری طرف اس کے حدیث بیان کرنے پر تحفظات کا ذکر کیا:"سنی شیخ جلیل، سمعت سلیمان بن حرب یحسن الثناء علیہ یقول: کان مشیختنا یعرفون لہ ویوصون بہ الا ان حدیثہ لا یشبہ حدیث اصحابہ، حتی ربما قال: کان لا یسعہ ان یحدث وقد یجب علی اھل العلم ان یقفوا (عن) حدیثہ ویتخففوا من الروایۃ عنہ فانہ منکر یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا وھذا اشد فلو کانت ھذہ المناکیر عن ضعاف لکنا نجعل لہ عذراً”
(کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
اگر یہ جرح سلیمان بن حرب کی زبانی ہے تو یعقوب الفارسی مؤمل کے موثقین میں شامل ہیں، اور اگر یہ جرح خود یعقوب کی ہے تو سلیمان بن حرب ان کے موثقین میں سے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ جرح جمہور کے مخالف ہونے کے سبب بھی مردود شمار ہوتی ہے۔ - ابوزرعہ الرازی
"فی حدیثہ خطا کثیر”
(میزان الاعتدال ۲۲۸/۴ ت۸۹۴۹)
یہ قول بھی بلا سند ہے۔ - امام بخاری
"منکر الحدیث”
(تہذیب الکمال ۵۲۶/۱۸، میزان الاعتدال ۲۲۸/۴، تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
ان تینوں کتابوں میں یہ قول بلا سند و بلا حوالہ آیا ہے، جبکہ دوسری طرف امام بخاری نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں مؤمل کا ذکر کیا ہے مگر کوئی جرح نہیں کی۔ مزید یہ کہ الضعفاء للبخاری میں بھی مؤمل بن اسماعیل کا تذکرہ نہیں۔ بخاری نے اپنی صحیح میں (ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳) مؤمل کی روایتیں درج کی ہیں۔ حافظ مزی فرماتے ہیں:
"استشھد بہ البخاری”
(تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
اور محمد بن طاہر المقدسی کہتے ہیں:
"بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ”
(شروط الائمۃ الستہ ص۱۸)
معلوم ہوا کہ امام بخاری کے ہاں وہ ثقہ ہی تھے، نہ کہ منکر الحدیث۔ - ابن سعد
"ثقۃ کثیر الغلط”
(الطبقات الکبری لابن سعد ۵۰۱/۵) - امام دارقطنی
"صدوق کثیر الخطا”
(سوالات الحاکم للدارقطنی: ۹۴۲)
تاہم دارقطنی کی دوسری عبارات میں ان کے خلاف بات نہیں ملتی۔ الضعفاء والمتروکین للدارقطنی میں مؤمل موجود نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس جرح سے رجوع کرچکے تھے۔ - عبدالباقی بن قانع البغدادی
"صالح یخطئ”
(تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول بھی بلا سند ہے اور خود ابن قانع پر بھی اختلاط کا الزام موجود ہے۔ - حافظ ابن حجر العسقلانی
"صدوق سیئ الحفظ”
(تقریب التہذیب: ۷۰۲۹) - امام احمد بن حنبل
"مؤمل کان یخطئ”
(سوالات المروزی: ۵۳، موسوعۃ اقوال الامام احمد ۴۱۹/۳)
یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کبھی کبھار خطا کرجاتے تھے، مگر یہ ثقہ کے لیے بھی ممکن ہے۔ اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ ناقابلِ اعتبار ہوجائیں۔ - ابن الترکمانی الحنفی
ان کی جرح "قیل” کی بنیاد پر آئی ہے، اس لیے مردود قرار پاتی ہے۔
(الجوہر النقی ۳۰/۲)
حصہ دوم: مؤمل بن اسماعیل پر تعدیل کرنے والے محدثین
اب ان محدثین کے اقوال پیش ہیں جن سے مؤمل بن اسماعیل کی توثیق یا کم ازکم اس کی حدیث کے مقبول ہونے کا ثبوت ملتا ہے:
- یحییٰ بن معین
"ثقۃ”
(تاریخ ابن معین راویۃ الدوری: ۲۳۵، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۳۷۳/۸)
کتاب الجرح والتعدیل میں روایت ہے:"انا یعقوب بن اسحاق فیما کتب الی قال : نا عثمان بن سعید قال قلت لیحیی بن معین : ای شیئ حال المؤمل فی سفیان؟ فقال : ھو ثقۃ، قلت : ھو احب الیک او عبیداللہ ؟ فلم یفضل احدا علی الآخر”
(۳۷۴/۸)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمل عن سفیان کے متعلق یحییٰ بن معین کا واضح توثیقی بیان ہے۔ - ابن حبان
انہوں نے انہیں اپنی کتاب الثقات (۱۸۷/۹) میں ذکر کیا اور کہا "ربما اخطا”۔ ابن حبان کے نزدیک اس طرح کی رائے رکھنے والا راوی ناقابلِ اعتبار نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ ابن حبان نے صحیح ابن حبان میں مؤمل سے روایتیں لائی ہیں۔
(مثلاً الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص۲۵۳ ح۶۶۸۱) - امام بخاری
بخاری نے اپنی صحیح میں مؤمل سے تعلیقاً روایت کی ہے (ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳)، یعنی وہ اس کے نزدیک ناقابلِ اعتبار نہیں تھے بلکہ کم ازکم استشہاد کے لائق ضرور تھے۔ محدثین کے یہاں یہ ایک قرینۂ توثیق سمجھا جاتا ہے۔ - سلیمان بن حرب
وہ مؤمل کی تعریف کرتے تھے۔ (تفصیل اوپر یعقوب بن سفیان کے بیان میں گزر چکی ہے) - اسحاق بن راہویہ
"ثقۃ”
(تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
یہ قول اگرچہ بلا سند نقل ہوا ہے لیکن اس کا مفہوم یہی نکلتا ہے کہ اسحاق بن راہویہ انہیں ضعیف نہیں سمجھتے تھے۔ - امام ترمذی
انہوں نے متعدد مقامات پر مؤمل کی روایت کو صحیح یا حسن قرار دیا، مثلاً (ح۴۱۵، ۶۷۲، ۱۹۴۸ کو صحیح کہا اور ۲۱۴۶، [۳۲۶۶] وغیرہ کو حسن کہا)۔
بریکٹ [ ] میں درج روایتیں غیر سفیان کی سند والی ہیں جبکہ سفیان الثوری سے روایت والی اکثر جگہوں پر صراحت سے تصحیح کی ہے۔ یوں ترمذی کے نزدیک وہ صحیح یا حسن الحدیث راوی ہیں۔ - ابن خزیمہ
انہوں نے بھی اس کی روایت کو اپنی صحیح میں درج کرکے اس کی تصحیح کی ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح۴۷۹) - امام دارقطنی
جب مؤمل سفیان الثوری سے روایت کرتے ہیں تو دارقطنی نے اس سند کے متعلق "اسنادہ صحیح” کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ یہ ان کے نزدیک بھی اس خاص سند میں اس کا معتبر ہونا ظاہر کرتا ہے۔ - امام حاکم اور امام ذہبی
دونوں نے مستدرک (۳۸۴/۱ ح۱۴۱۸) میں مؤمل عن سفیان کی روایت کو علیٰ شرط الشیخین کہا اور اس کی تصحیح کی۔ اس پر ذہبی نے بھی موافقت کی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں ہی کے نزدیک مؤمل مقبول و معتبر ہیں۔ - حافظ ذہبی
"کان من ثقات البصریین”
(العبر فی خبر من غبر ۲۷۴/۱ وفیات ۲۰۶ھ)
صاف ظاہر ہے کہ مؤمل بن اسماعیل کو وہ ثقات میں شمار کرتے تھے۔ - امام احمد بن حنبل
انہوں نے اپنی مسند میں (۱۶/۱ ح۹۷) وغیرہ جگہوں پر مؤمل سے روایات اخذ کی ہیں۔ ظفر احمد تھانوی دیوبندی کے قول کے مطابق:
"وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات”
(قواعد فی علوم الحدیث ص۱۳۳، اعلاء السنن ج۱۹ ص۲۱۸)
اسی طرح حافظ ہیثمی کہتے ہیں کہ امام احمد کے شیوخ ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ۸۰/۱)
- علی بن المدینی
انہوں نے بھی مؤمل سے روایت لی، جیسا کہ تہذیب الکمال (۵۲۶/۱۸) وغیرہ میں ہے۔ ابوالعرب القیروانی کے مطابق احمد اور علی بن المدینی عام طور پر صرف مقبول راوی سے روایت کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب ۱۱۴/۹ ت۱۵۵) - ابن کثیر الدمشقی
تفسیر ابن کثیر میں (۴۲۳/۴ سورۃ المعارج) مؤمل عن سفیان کی ایک حدیث کو "اسناد جید” کہا۔ اسی طرح مسند الفاروق (۳۶۷/۱) میں بھی اسے جید قرار دیتے ہیں۔ - حافظ ضیاء المقدسی
انہوں نے اپنی کتاب المختارہ (۳۴۵/۱ ح۲۳۷) میں مؤمل کی حدیث درج کی، جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ان کے نزدیک بھی صحیح الحدیث ہے۔ - ابوداؤد کا قول (ابوعبیدۃ الآجری کی روایت)
"قال ابو عبیدۃ الآجری: سالت ابا داؤد عن مؤمل بن اسماعیل فعظمہ ورفع من شانہ الا انہ یھم فی الشیئ۔”
(تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
اگرچہ اس قول کی سند میں خود ابوعبیدۃ الآجری کی توثیق معلوم نہیں، لیکن اس سے کم ازکم یہ مفہوم ضرور نکلتا ہے کہ مؤمل ابوداؤد کے نزدیک بالکل ناقابلِ احتجاج نہ تھے۔ - حافظ ہیثمی
"ثقۃ وفیہ ضعف”
(مجمع الزوائد ۱۸۳/۸)
یعنی وہ انہیں حسن الحدیث سمجھتے ہیں؛ کیونکہ "ثقۃ وفیہ ضعف” عموماً ایسے راوی کے لیے کہا جاتا ہے جن کی عمومی توثیق ہو لیکن چند جگہوں پر غلطیاں پائی جائیں۔ - امام نسائی
انہوں نے السنن الصغریٰ میں مؤمل کی روایت (ح۴۰۹۷، ۴۵۸۹) درج کی ہے۔ ظفر احمد تھانوی کے بقول اگر نسائی کسی راوی پر جرح نہ کریں اور اپنی سنن میں لائیں تو وہ ان کے ہاں عام طور پر ثقہ گردانا جاتا ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص۲۲۲) - ابن شاہین
انہوں نے اپنی کتاب الثقات (ص۲۳۲ ت۱۴۱۶) میں مؤمل کو شامل کیا ہے۔ - امام اسماعیلی
انہوں نے مستخرج علیٰ صحیح البخاری میں مؤمل سے روایت کی ہے۔ (فتح الباری ۳۳/۱۳ تحت ح۷۰۸۳) - حافظ ابن حجر کی ایک دوسری شہادت
انہوں نے فتح الباری (۲۲۴/۲ تحت ح۷۴۰) میں ابن خزیمہ کی حدیث (جس میں مؤمل بن اسماعیل ہے) ذکر فرمائی مگر کوئی جرح نہ کی۔ ظفر احمد تھانوی دیوبندی کے بقول حافظ ابن حجر نے جو روایات فتح الباری میں زیادہ ذکر کی ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہیں۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)
نتیجۂ تعدیل
- ان تمام اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ یا کم ازکم صدوق اور حسن الحدیث ہیں۔ ان پر ہونے والی جرح یا تو ثابت نہیں یا پھر اکثریت کے مخالف ہونے کے سبب رد کردی گئی ہے۔
- امام بخاری سے منسوب جرح "منکر الحدیث” کسی مستند ذریعہ سے ثابت نہیں۔
- امام ترمذی وغیرہ کے ہاں بالخصوص "مؤمل عن سفیان (الثوری)" سند کو صحیح کہا گیا ہے۔
- حافظ ابن حجر کا قول "فی حدیثہ عن الثوری ضعف" (فتح الباری ۲۳۹/۹ تحت ح۵۱۷۲) جمہور کے خلاف ہے، لہٰذا رد کردیا جاتا ہے۔ اس لیے اس پہلو پر کئی شواہد موجود ہیں کہ مؤمل عن سفیان بخاری، دارقطنی، ابن خزیمہ وغیرہ کے نزدیک صحیح الحدیث ہے۔ غیرِ سفیان میں اس کی روایت کم ازکم حسن کے درجے میں ہوگی۔
✔خلاصہ یہ ہے کہ مؤمل عن سفیان الثوری ⇒ صحیح الحدیث
✔اور مؤمل عن غیر سفیان ⇒ حسن الحدیث۔
ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی اعلاء السنن (ج۳ ص۱۳۳ تحت ح۸۶۵) میں ایک سند کو مؤمل عن سفیان کے ساتھ نقل کرکے "رجالہ ثقات” کہا، اور ایک دوسری جگہ لکھا: "فالسند حسن" (اعلاء السنن ۱۱۸/۳)۔ چنانچہ یہ واضح ہے کہ خود دیوبندی محققین بھی مؤمل کو ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث مانتے ہیں۔
حصہ سوم: جرح کے مقابلے میں تعدیل کا عددی تقابل
- جارحین کی تعداد = ۷ کے قریب
- معدلین کی تعداد = ۱۸ سے زائد
نیز زمانہ تدوین حدیث کے اکثر بڑے محدثین نے اپنی کتبِ ضعفاء میں مؤمل کا ذکر نہیں کیا مثلاً امام بخاری، امام نسائی، ابن شاہین، ابن حبان، عقیلی اور ابن الجوزی وغیرہم نے کسی بھی کتابِ ضُعفاء میں مؤمل کو داخل نہیں کیا۔ جو جرح بعض کتب میں ملتی بھی ہے، وہ یا تو بلا سند ہے یا پھر جمہور کے خلاف۔
حصہ چہارم: بعض معاصر اعتراضات کا جواب
آج کل بعض دیوبندی و بریلوی حضرات مؤمل بن اسماعیل پر جرح محض اس لیے نقل کرتے ہیں کہ ان کی ایک روایت نماز میں "سینے پر ہاتھ باندھنے" کے بارے میں صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح۴۷۹) اور احکام القرآن للطحاوی (۱۸۶/۱ ح۳۲۹) وغیرہ میں آتی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس روایت میں "مؤمل عن سفیان الثوری” کا وجود ہے، اس لیے انہیں کسی طرح کمزور کیا جائے۔ حالانکہ محدثین کی اکثریت کے نزدیک وہ سفیان سے روایت کرنے میں بالکل صحیح الحدیث ہیں۔
علاوہ ازیں سفیان الثوری مدلس بھی ہیں، تو وہ (سفیان) جب تک صراحت نہ کریں، سند میں ضعف پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن اسی حدیث کی ایک مضبوط شاہد مسند احمد (۲۲۶/۵ ح۲۲۳۱۳) کے توسط سے بھی موجود ہے جس میں یحییٰ بن سعید (القطان) عن سفیان وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس سے اصل روایت کو تقویت مل جاتی ہے۔
قبیصہ بن ہلب کا مختصر جائزہ
- متعلقہ حدیث میں قبیصہ بن ہلب کا ذکر بھی آتا ہے جو کہ ابن مدینی اور نسائی کے نزدیک مجہول بتائے گئے، مگر یہ قول جمہور کے مخالف اور سند کے بغیر ہے۔
- امام العجلی نے اسے ثقہ کہا، ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں داخل کیا، اور امام ترمذی نے اس کی ایک روایت کو حسن کہا۔
- نووی نے ایک روایت کو "باسناد صحیح” بھی کہا، اور ابن عبدالبر نے "حدیث صحیح” کا حکم لگایا ہے۔
- لہٰذا قبیصہ درجۂ حسن کا راوی ہے اور اس پر بھی کوئی مؤثر جرح ثابت نہیں۔
نتیجہ:
مذکورہ سند میں جب مؤمل بن اسماعیل اور قبیصہ بن ہلب، دونوں ہی جمہور کے ہاں قابلِ اعتماد قرار پاتے ہیں، تو اس حدیث کی تضعیف محض تعصب کی بنیاد پر ہے۔
جامع خلاصہ
- مؤمل بن اسماعیل پر جن محدثین نے سخت جرح کی، ان کے اقوال یا تو بلا سند ہیں یا پھر ان کا رجوع ثابت ہے، یا جمہور کے اقوال کے مخالف ہونے کے باعث ناقابلِ قبول ہیں۔
- تعدیل کرنے والوں کی طویل فہرست سے ثابت ہے کہ وہ مجموعی طور پر ثقہ یا حسن الحدیث شمار ہوتے ہیں، خصوصاً سفیان الثوری سے روایت کرنے میں ان کی توثیق بہت واضح ہے۔
- سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کو رد کرنے کے لیے بعض حضرات کا مؤمل کو ہدف بنانا علمی دیانت کے خلاف ہے، کیونکہ اسی مؤمل کی متعدد روایات خود انہی کی کتابوں میں صحیح یا حسن تسلیم کی جاتی ہیں۔
والحمدللہ علیٰ ذلک، وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین۔