ذیل میں سماک بن حرب کے حالات، اُن پر ہونے والی جرح اور اس کے مقابلے میں محدثین کی تعدیل کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تمام روایات اور حوالہ جات اصل شکل میں رکھے گئے ہیں تاکہ مواد مکمل طور پر محفوظ رہے۔
سماک بن حرب کا مختصر تعارف
سماک بن حرب کتبِ ستہ کے راوی اور اوساط تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں ان کی روایتوں کا ذکر ہے:
- صحیح البخاری میں ان کی روایت کا حوالہ:
(ح۶۷۲۲ قال: تابعہ یونس وسماک بن عطیۃ وسماک بن حرب۔۔۔”الخ)
- صحیح مسلم میں ان کی تقریباً پینتالیس (۴۵) روایتیں موجود ہیں (بعض روایتیں مکرر بھی ہیں):
(۲۲۴، ۱۲۸/۴۳۶، ۴۵۸، ۴۵۹، ۴۹۹، ۶۰۶، ۶۱۸، ۶۴۳(۶۷۰)، ۷۳۴، ۸۶۲، ۸۶۶، ۹۶۵، ۹۷۸، ۱۷۳/۱۰۷۵، ۱۳۸۵، ۱۱/۱۵۰۴، ۶/۱۶۲۸، ۱۸/۱۶۵۱، ۱۳/۱۶۷۱، ۱۶۸۰، (۱۶۹۲)، ۱۶۹۳، ۱۷۴۸، ۶/۱۸۲۱، ۱۸۴۶۷، ۱۹۲۲، ۱۹۸۴، ۲۰۵۳، ۲۱۳۵، ۲۲۴۸، ۲۲۷۷، ۴۴/۲۳۰۵، ۲۳۲۲، ۲۳۲۹، ۲۳۳۹، ۲۳۴۴، ۲۳۶۱، ۲۷۴۵، ۴۲/۲۷۶۳، ۴۳، ۷۸/۲۹۱۹، ۲۹۲۳، ۲۹۷۷، ۲۹۷۸)
اسی طرح سنن ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور نسائی میں بھی ان کی متعدد روایات ملتی ہیں۔
حصہ اوّل: جارحین اور ان کی جرح
ذیل میں ان محدثین کے اقوال دیے جاتے ہیں جن سے سماک بن حرب پر بعض جرحیں منقول ہیں۔ ساتھ ہی ہر جرح کی اصل حیثیت واضح کی جائے گی۔
شعبہ والا قول
"شعبہ: قال یحیٰ بن معین: ‘سماک بن حرب ثقۃ وکان شعبۃ یضعفہ’۔۔۔ الخ (تاریخ بغداد ۲۱۵/۹ ت۴۷۹۲)”
- ابن معین (۱۵۷ھ) کی پیدائش شعبہ بن الحجاج (وفات ۱۶۰ھ) کے تقریباً تین سال پہلے ہے۔ یہ قول منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے کیونکہ ابن معین نے خود شعبہ کو نہیں پایا کہ براہِ راست ان کا قول نقل کرسکیں۔
سفیان الثوری کا قول
"کان یضعفہ بعض الضعف”
یہ قول امام العجلی (مولود ۱۸۲ھ، متوفی ۲۶۱ھ) نے نقل کیا ہے:
"جائز الحدیث۔۔۔ وکان فصیحاً الا انہ کان فی حدیث عکرمۃ ربما وصل عن ابن عباس۔۔۔ وکان سفیان الثوری یضعفہ بعض الضعف”
(تاریخ الثقات: ۶۲۱، تاریخ بغداد ۲۱۹/۹)
- سفیان الثوری (وفات ۱۶۱ھ) کے قول کی سند بھی منقطع ہے۔
- اس کے برعکس شعبہ اور سفیان دونوں سماک سے روایتیں بیان کرتے ہیں۔ اگر یہ جرح ثابت بھی ہوتی تو اسے صرف "سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس" کی سند پر محمول کیا جاسکتا ہے (جیسا کہ خود العجلی کے کلام سے واضح ہے)۔
- ابن عدی نے احمد بن الحسین الصوفی (?) کے واسطے سے محمد بن خلف بن عبدالحمید کی سند کے ساتھ سفیان سے نقل کیا کہ "سماک ضعیف" (الکامل ۱۲۹۹/۳)؛ مگر محمد بن خلف کے حالات نامعلوم ہیں، لہٰذا یہ قول بھی ثابت نہیں۔
امام احمد بن حنبل: "مضطرب الحدیث”
(الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴)
- اس قول کے ایک راوی "محمد بن حمویہ بن الحسن" کی توثیق معلوم نہیں ہے، تاہم یعقوب الفارسی کی
کتاب المعرفۃ والتاریخ (۶۳۸/۲) میں اس کا ایک شاہد بھی موجود ہے۔
- امام احمد کی کتاب العلل ومعرفۃ الرجال (۱۵۴/۱ رقم: ۷۷۵) میں امام احمد کے قول "سماک یرفعھما عن عکرمۃ عن ابن عباس" سے پتہ چلتا ہے کہ مضطرب الحدیث کی جرح کا تعلق صرف "سماک عن عکرمۃ" والی سند سے ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی کا قول
"یقولون انہ کان یغلط ویختلفون فی حدیثہ”
(تاریخ بغداد ۲۱۶/۹ وسندہ صحیح)
- یہاں "یقولون" کا فاعل نامعلوم ہے۔ کسی معتبر ذریعہ سے معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں۔
صالح بن محمد البغدادی: "یضعف”
(تاریخ بغداد ۲۱۶/۹)
- یہ قول محمد بن علی المقرئی کے واسطے سے ہے، جس کی تعیین مطلوب ہے۔ اگر یہ وہی ابوالعلاء المقرئی ہیں تو وہ مجروح ہیں۔ (دیکھیے میزان الاعتدال ۶۵۴/۳ ت۷۹۷۱)
ابن خراش کا قول: "فی حدیثہ لین”
(تاریخ بغداد ۶۱۶/۹)
- ابن خراش بذات خود جمہور کے نزدیک مجروح ہیں (میزان الاعتدال ۶۰۰/۲ ت۵۰۰۹)، نیز اس کی سند میں محمد بن محمد بن داؤد الکرجی کا حال بھی نامعلوم ہے۔
ابن حبان کا قول
"ذکرہ فی الثقات (۳۳۹/۴) وقال: یخطئ کثیراً۔۔۔ روی عنہ الثوری وشعبۃ”
- یہ قول تین وجہ سے مردود ہے:
- اگر ابن حبان کے نزدیک سماک "یخطئ کثیراً" تھا تو وہ ثقہ کیسے ہوا؟ اور اگر ثقہ ہے تو "یخطئ کثیراً” کہنا درست نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وھذا من افرادہ وتناقضہ، اذ لوکان یخطئ کثیراً لم یکن ثقۃ!”
(الضعیفۃ ۳۳۳/۲ ح۹۳۰) - ابن حبان نے اپنی صحیح میں سماک بن حرب کی بہت سی روایات درج کیں (مثلاً الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۱۴۳/۱ ح۶۶ ص۱۴۴ ح۶۸،۶۹)، تو اگر وہ واقعی "یخطئ کثیراً" ہوتا تو اس کی روایات کیسے صحیح قرار پاتیں؟
- خود ابن حبان نے اپنی ایک دوسری کتاب "مشاہیر علما الامصار” (ص۱۱۰ ت۸۴۰) میں سماک کو بغیر کسی جرح کے ذکر کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ابن حبان کا یہ بیان (یخطئ کثیراً) یا تو ان کا تناقض ہے یا اسے عملی حیثیت نہیں دیتے تھے۔
- اگر ابن حبان کے نزدیک سماک "یخطئ کثیراً" تھا تو وہ ثقہ کیسے ہوا؟ اور اگر ثقہ ہے تو "یخطئ کثیراً” کہنا درست نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام عقیلی
ذکرہ فی کتاب الضعفاء الکبیر (۱۷۸/۲، ۱۷۹)
- عقیلی نے اپنی کتاب میں سماک کا تذکرہ کیا، تاہم جرح یا کوئی معقول دلیل ایسی نہیں جو محدثین کی توثیق کا رد کرسکے۔
جریر بن عبدالحمید
انہوں نے سماک کو کھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا، اس پر انہوں نے ان سے روایت ترک کردی۔
(الضعفاء للعقیلی ۱۷۹/۲، الکامل لابن عدی ۱۲۹۹/۳)
- یہ جرح نہیں بلکہ ایک واقعہ ہے۔ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کسی شرعی عذر کے سبب بھی ہوسکتا ہے۔ امام مالک کی موطا میں باسند صحیح ثابت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی (کسی عذر سے) کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے۔ (۱/۶۵ ح۱۴۰ بتحقیقی)
- لہٰذا یہ امر سماک کی تضعیف کی دلیل نہیں بن سکتا۔
امام نسائی
"لیس بالقوی وکان یقبل التلقین”
(السنن المجتبیٰ ۳۱۹/۸ ح۵۶۸۰ بتحقیقی)
- تہذیب التہذیب میں نسائی کا ایک اور قول ہے:
"فاذا انفرد باصل لم یکن حجۃ”
(تحفۃ الاشراف للمزی ۱۳۷/۵، ۱۳۸ ح۶۱۰۴) - یہ عمومی انداز کا بیان ہے۔ اکثر محدثین اس جرح کو خاص "سماک عن عکرمۃ" سے متعلق قرار دیتے ہیں (اگلے مباحث میں ذکر آ رہا ہے)۔
ابن المبارک
"سماک ضعیف فی الحدیث”
(تہذیب الکمال ۱۳۱/۸، تہذیب التہذیب ۲۰۴/۴)
- یہ روایت بلا سند ہے۔ الکامل لابن عدی (۱۲۹۹/۳) میں اس کی سند بھی ضعیف ہے (جیسا کہ اوپر سفیان الثوری سے منسوب قول کے تحت گزر چکا)۔
امام بزار
"کان رجالً مشھوراً لا اعلم احداً ترکہ وکان قد تغیر قبل موتہ”
(تہذیب التہذیب ۲۰۵/۴ بلاسند)
- یہاں "تغیر قبل موتہ" یعنی اختلاط کا تذکرہ ہے، جس پر آگے روشنی ڈالی جائے گی۔
یعقوب بن شیبہ
"وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وھو فی غیر عکرمۃ صالح ولیس من المتشبتین ومن سمع من سماک قدیماً مثل شعبۃ وسفیان فحدیثھم عنہ صحیح مستقیم والذی قال ابن المبارک انما یری انہ فیمن سمع منہ باخرۃ”
(تہذیب الکمال ۱۳۱/۸)
- یہ تو دراصل توثیق ہے کہ "وھو فی غیر عکرمۃ صالح" ہے اور سفیان و شعبہ نے ان سے جو قبل از اختلاط روایتیں کیں وہ صحیح ہیں۔ ابن المبارک کا قول اس کے برعکس نہیں ملتا، البتہ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جب سماک کی ضعف کی بات ہوتی ہے تو ممکن ہے وہ اختلاط کے آخری دور کی روایتوں پر محمول ہو۔
حصہ دوم: معدلین اور ان کی تعدیل
اب ان اکابرِ محدثین کے اقوال پیش ہیں جنہوں نے سماک بن حرب کی توثیق کی یا کم از کم اسے صدوق اور قابلِ اعتبار قرار دیا:
1. امام مسلم
- انہوں نے سماک کی روایات کو اپنی صحیح میں شامل کیا۔ (دیکھیے میزان الاعتدال ۲۳۳/۲)
- شروع میں بیان ہوا کہ صحیح مسلم میں سماک کی پینتالیس سے بھی زائد روایتیں ہیں، لہٰذا سماک امام مسلم کے نزدیک ثقہ وصدوق اور صحیح الحدیث قرار پاتے ہیں۔
2. امام بخاری
- صحیح بخاری میں ح۶۷۲۲ پر سماک کا ذکر ملتا ہے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
"وقد علق لہ البخاری استشھاداً بہ”
(سیر اعلام النبلاء ۲۴۸/۵) - اثبات التعدیل فی توثیق مؤمل بن اسماعیل میں وضاحت گزر چکی کہ امام بخاری جس راوی سے بطور استشہاد روایت کرتے ہیں، وہ ان کے ہاں عموماً معتبر ہوتا ہے۔
3. شعبہ
- انہوں نے سماک سے روایت کی (صحیح مسلم ۲۲۴ وغیرہ)۔
- شعبہ کے بارے میں معروف ہے کہ وہ (عمومی طور پر) اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت لینے کے قائل تھے (تہذیب التہذیب ج۱ ص۴، ۵، وقواعد فی علوم الحدیث ص۲۱۷ للدیوبندی)۔
4. سفیان الثوری
- نقل ہے کہ سفیان نے خود کہا:
"ما یسقط لسماک بن حرب حدیث”
(تاریخ بغداد ۲۱۵/۹ وسندہ حسن لذاتہ) - یعنی سماک کی حدیث ساقط الاعتبار نہیں۔ حافظ ابن حجر کی تنقید (تہذیب التہذیب ۲۰۵/۴) کے باوجود یہ قول ایک واضح توثیق کے طور پر موجود ہے۔
5. یحییٰ بن معین
"ثقۃ”
(الجرح والتعدیل ۲۷۹/۹، تاریخ بغداد ۲۱۵/۹ وسندہ صحیح)
6. ابوحاتم الرازی
"صدوق ثقۃ”
(الجرح والتعدیل ۲۸۰/۴)
7. امام احمد بن حنبل
"سماک اصلح حدیثاً من عبدالملک بن عمیر”
(الجرح والتعدیل ۲۷۹/۴، ۲۸۰ وسندہ صحیح)
- یہ ایک مثبت بیان ہے کہ سماک کی حدیث عبدالملک بن عمیر سے بہتر ہے۔
8. ابو اسحاق السبیعی
"خذوا العلم من سماک بن حرب”
(الجرح والتعدیل ۲۷۵/۴ وسندہ حسن)
- ابو اسحاق کا یہ فرمانا سماک کی بلند علمی حیثیت کی طرف اشارہ ہے۔
9. امام العجلی
- انہوں نے اپنی کتاب "تاریخ الثقات" میں لکھا: "جائز الحدیث"۔ (تفصیل اوپر جرحِ سفیان والے قول میں آگئی)
10. ابن عدی
"واحادیثہ حسان عن من روی عنہ وھو صدوق لا بأس بہ”
(الکامل ۱۳۰۰/۳)
11. امام ترمذی
- انہوں نے سماک کی بہت سی احادیث پر "حسن صحیح" کا حکم لگایا۔ (مثلاً ح۶۵، ۲۰۲، ۲۲۷)
- یہاں تک کہ سنن ترمذی کی پہلی روایت ہی سماک کی سند سے ہے (ح۱)۔
12. ابن شاہین
- انہوں نے اپنی کتاب "الثقات” (۵۰۵) میں سماک کو ذکر کیا۔
13. امام حاکم
- المستدرک (۲۹۷/۱) میں سماک کی روایت کو تصحیح کے ساتھ بیان کیا۔
14. حافظ ذہبی
- انہوں نے المستدرک کے "تلخیص" میں اس کی تصحیح کی تائید کی (۲۹۷/۱)۔
- اس کے علاوہ متعدد الفاظِ توثیق استعمال کیے:
"صدوق جلیل” (المغنی فی الضعفاء: ۲۶۴۹)
"الحافظ الامام الکبیر” (سیر اعلام النبلاء ۲۳۵/۵)
"وکان من حملۃ الحجۃ ببلدہ” (سیر اعلام النبلاء ۲۴۶/۵)
15. ابن حبان
- انہوں نے اپنی صحیح میں سماک سے احادیث روایت کیں، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اس لیے عملًا ان کے نزدیک وہ ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہیں۔
16. ابن خزیمہ
- انہوں نے اپنی صحیح میں سماک کی روایت پر تصحیح کا حکم لگایا (۸/۱ ح۸ وغیرہ)۔
17. بغوی
"ھذا حدیث حسن”
(شرح السنۃ ۳۱/۴ ح۵۷۰)
- سماک کی روایت پر انہوں نے حسن کا حکم لگایا۔
18. نووی
- المجموع شرح المہذب (۴۹۰/۳) میں سماک کی حدیث کو "حسن” کہا۔
19. ابن عبدالبر
- الاستیعاب (۶۱۵/۳) میں سماک کی حدیث کو "صحیح" قرار دیا۔
20. ابن الجارود
- انہوں نے اپنی کتاب "المنتقی” (ح۲۵) میں سماک کی حدیث ذکر کی۔
- اشرف علی تھانوی دیوبندی کہتے ہیں کہ ابن الجارود کا حدیث ذکر کرنا اس کے صحیح قرار دینے کے مترادف ہے (بوادر النوادر ص۱۳۵)۔
21. امام ضیاء المقدسی
- انہوں نے اپنی کتاب "المختارہ” (۱۱/۱۲، ۹۸ ح۱۔۱۱۵) میں سماک کی روایت لے کر اس سے استدلال کیا۔
22. امام منذری
- انہوں نے سماک کی ایک روایت (ترمذی ح۲۶۵۷ برمزہ “عن”) کو حسن قرار دیا (الترغیب والترہیب ۱۰۸/۱ ح۱۵۰)۔
23. حافظ ابن حجر
- تقریب التہذیب (۲۶۲۴) میں لکھتے ہیں:
"صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما یلقن” - یعنی وہ مجموعی طور پر صدوق ہیں۔ جرح کو انہوں نے خاص "سماک عن عکرمۃ" یا پھر اختلاط کی طرف منسوب کیا ہے۔
- نیز فتح الباری میں سماک کی حدیث پر سکوت کیا۔ (۲۲۴/۲ تحت ح۷۴۰)
- ظفر احمد تھانوی دیوبندی کے نزدیک حافظ ابن حجر فتح الباری میں جن اضافی احادیث پر سکوت فرمائیں، وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہیں (قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)۔ یوں سماک پر ابن حجر کے ہاں بھی حکمِ حسن یا صحیح ہی بنتا ہے۔
24. ابوعوانہ
- انہوں نے اپنی صحیح (المستخرج علی صحیح مسلم) (۲۳۳/۱) میں سماک سے روایت لی۔
25. ابو نعیم الاصبہانی
- انہوں نے بھی صحیح مسلم پر اپنے مستخرج (۲۸۹/۱، ۲۹۰ ح۵۳۵) میں سماک کی روایات ذکر کیں۔
26. ابن سید الناس
- انہوں نے اپنی شرح ترمذی میں سماک کی روایت کی تصحیح کی۔ شیخ محمد بدیع الدین الراشدی السندی کے حوالے سے نقل کیا گیا؛ (دیکھئے نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا ص۱۰ ح۳)
خلاصۂ تعدیل
- ان تفصیلی اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ سماک بن حرب کو جمہور محدثین ثقہ یا صدوق اور صحیح الحدیث قرار دیتے ہیں۔
- مخصوص سند "سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس" پر ان کے اضطراب کے کچھ شواہد موجود ہیں، تاہم اس سے ان کی باقی روایتوں پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
حصہ سوم: اختلاط کی بحث
بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ سماک بن حرب آخری عمر میں حافظے کے کمزور ہونے یا اختلاط کا شکار ہوئے۔ مثلاً:
"تغیر باخرۃ”
(الکواکب النیرات لابن الکیال ص۴۵، الاغتباط بمن رمی بالاختلاط ص۱۶۱ ت۴۸)
ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ:
"واعلم ان من کان من ھذا قبیل مختجاً برواتیہ فی الصحیحین او احدھما فانا نعرف علی الجملۃ ان ذلک مما تمیز وکان ماخوذاً عنہ قبل الاختلاط واللہ اعلم”
(علوم الحدیث مع التقیید والایضاح ص۶۶ نوع۶۲)
- گویا جو مختلط راوی صحیحین میں بطور حجت پیش ہوں، ان کی روایات کو قبل از اختلاط سمجھا جاتا ہے۔
صحیح مسلم میں سماک کے مندرجہ ذیل شاگردوں نے روایتیں کی ہیں، جو سب کے سب قبل اختلاط کے زمانے میں روایت کرنے والے ہیں:
- ابوعوانہ (۲۲۴)
- شعبہ (۲۲۴)
- زائدہ (۲۲۴)
- اسرائیل (۲۲۴)
- ابوالاحوص (۴۳۶)
- ابو خیثمہ زہیر بن معاویہ (۴۳۶)
- عمر بن عبید الطنافسی (۲۴۲/۴۹۹)
- سفیان الثوری (۲۸۷/۶۷۰ تحفۃ الاشراف للمزی ۱۵۴/۲ ح۲۱۶۴)
- زکریا بن ابی زائدہ (۲۸۷/۶۷۰)
- حسن بن صالح (۷۳۴)
- مالک بن مغول (۹۶۵)
- ابو یونس حاتم بن ابی صغیرہ (۱۶۸۰)
- حماد بن سلمہ (۷/۱۸۲۱)
- ادریس بن یزید الاودی (۲۱۳۵)
- ابراہیم بن طہمان (۲۲۷۷)
- زیاد بن خیثمہ (۴۴/۲۳۰۵)
- اسباط بن نصر (۲۳۲۹)
- ان سب کی روایتیں قبل از اختلاط ہیں، لہٰذا "سفیان الثوری عن سماک” والی روایت پر اختلاط کی جرح کرنا درست نہیں۔
زیربحث روایت ("علی صدرہ”) اور اس پر بعض اعتراضات کا جواب
- بعض کہتے ہیں کہ "علی صدرہ" والے الفاظ صرف سفیان الثوری نے بیان کیے، جبکہ ابوالاحوص اور شریک القاضی وغیرہ نے انہیں ذکر نہیں کیا۔
جواب:
سفیان الثوری ثقہ حافظ ہیں اور اپنے سماع کی تصریح کررہے ہیں۔ عدمِ ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ جب بھی زیادہ ثقہ یا صدوق راوی کوئی زائد الفاظ بیان کرے تو وہ قابلِ قبول ہوتے ہیں، بشرطیکہ اس میں مخالفتِ صریح نہ ہو۔
- نیموی حنفی نے خود اصولاً تسلیم کیا کہ ثقہ راوی کا کیا ہوا اضافہ قابلِ قبول ہے (آثار السنن ص۱۷ ح۳۶ حاشیہ۲۷)۔
- اسی طرح موطا امام مالک اور صحیح بخاری کے موقوف و مرفوع حوالوں کی مثال سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ موقوف میں اضافہ ہونے کی صورت میں اصل حدیث کمزور نہیں ہوتی۔
- مسند احمد (۲۲۶/۵ ح۲۲۳۱۳) میں "یضع ھذہ علی صدرہ” کے الفاظ موجود ہیں۔ امام ابن الجوزی نے بھی اپنی سند سے ان الفاظ کو ذکر کیا ہے (۲۸۴/۱) جس سے تاویلات کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور "علی صدرہ" کے الفاظ صحیح و محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔
- راوی اگر ثقہ یا صدوق ہو تو اس کا تفرد (الفاظِ زائد) مضر نہیں ہوتا۔
- بعض نے اعتراض کیا کہ روایت میں "فی الصلوٰۃ" کی صراحت نہیں۔
جواب:
اسی سند کے بعد مسند احمد میں ہی ایک دوسری روایت میں "فی الصلوٰۃ” کی صراحت موجود ہے (احمد ۲۲۶/۵ ح۲۲۳۱۴ من طریق سفیان عن سماک بن حرب)۔
دیگر تنبیہات
- سماک عن عکرمۃ عن ابن عباس کا سلسلہ ضعیف ہے۔ اس سے ہٹ کر سماک کی باقی روایتوں پر جمہور نے اعتماد کیا۔
- اگر بعض کتب میں سماک کا "تغیر باخرۃ” ذکر ہے تو صحیحین اور دیگر معتبر کتب میں جتنی اس کی روایات ہیں، وہ قبل از اختلاط سمجھی جاتی ہیں، لہٰذا ان میں کوئی ضعف نہیں۔
- بعض بریلوی حضرات نے (مناظرے ہی مناظرے ص۳۳۵، ص۱۲۹، ۱۳۴) سماک کو "مدلس" کہہ کر روایت کو مردود قرار دیا۔ یہ صریح جھوٹ ہے کیونکہ کسی بھی معتبر کتاب میں سماک کو "مدلس" نہیں کہا گیا، نہ ہی کتب مدلسین میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
اختتامیہ
ان تمام تفصیلات سے ثابت ہوا کہ:
- سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق اور قابلِ اعتماد ہیں۔
- "مضطرب الحدیث" یا "یقبل التلقین” وغیرہ کی جرح کا تعلق یا تو اختلاط کے آخری دور سے ہے، یا خاص "سماک عن عکرمۃ” سلسلے سے جڑا ہے۔ اس کے علاوہ سماک کی روایات پر صحیح یا کم از کم حسن ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔
- "علی صدرہ" والے الفاظ سفیان الثوری کے واسطے سے بلاتردد ثابت ہوتے ہیں۔ اس پر جرح واختلاط کا اطلاق مردود ہے، کیونکہ شعبہ اور سفیان جیسے اکابر نے سماک سے اسی دور میں روایت کی جب وہ مختلط نہیں ہوئے تھے۔
وما علینا الا البلاغ