ذو القرنین: قرآن مجید میں ذکر اور علماء کی آراء
قرآن مجید کی سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نے ذو القرنین نامی شخصیت کا ذکر فرمایا ہے۔ اس بارے میں سلف صالحین اور عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ انسان تھے۔ اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ وہ نبی تھے، بادشاہ تھے یا ایک عام نیک انسان جنہیں اللہ نے مال و اسباب سے نوازا۔ تاہم، ان کے فرشتہ ہونے کا قول کسی حدیث، قولِ صحابی یا کسی معتبر عالم سے ثابت نہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول
ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ذو القرنین کے متعلق پوچھا گیا:
’’کیا ذو القرنین نبی تھے؟‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’وہ ایک نیک بندے تھے۔ انہوں نے اللہ سے محبت کی تو اللہ نے ان سے محبت کی، انہوں نے اللہ کے لیے اخلاص دکھایا تو اللہ نے ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیا۔ اللہ نے انہیں ان کی قوم کی طرف بھیجا، ان کے سر پر دو ضربیں لگائی گئیں، اسی وجہ سے ان کا نام ذو القرنین پڑ گیا۔‘‘
(تفسیر طبری: 15/370، سند صحیح)
ایک اور روایت میں سائل نے پوچھا:
’’ذو القرنین نبی تھے یا بادشاہ؟‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’نہ نبی تھے نہ بادشاہ، بلکہ وہ ایک نیک بندے تھے۔‘‘
(تفسیر عبد الرزاق: 3/234، سند صحیح)
تابعین اور دیگر علماء کی آراء
- امام قتادہ بن دعامہ تابعی رحمہ اللہ:
’’ذو القرنین روم سے نکلے تھے اور وہ نیک مرد تھے۔‘‘
(العظمة لأبي الشيخ: 4/1445، سند حسن) - وہب بن منبہ تابعی رحمہ اللہ:
’’ذو القرنین بادشاہ تھے۔‘‘
(العظمة لأبي الشيخ: 4/1444، سند حسن) - امام ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ):
’’وہ بادشاہ تھے۔‘‘
(احکام القرآن: 3/243) - حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (775ھ):
’’صحیح بات یہ ہے کہ وہ عادل بادشاہوں میں سے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ نبی یا رسول تھے، لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ انہیں فرشتہ کہا گیا۔‘‘
(البدایة والنهایة: 2/537) - علامہ سخاوی رحمہ اللہ (902ھ):
’’صحیح ترین قول یہ ہے کہ ذو القرنین عدل کرنے والے بادشاہوں میں سے تھے۔‘‘
(الأجوبة المرضية: 2/856)
اسرائیلی روایات اور ان کا جائزہ
امام ابو الشیخ اصبہانی رحمہ اللہ نے اسرائیلی روایات نقل کی ہیں جن کے مطابق ذو القرنین ایک بادشاہ تھے، مصر کے کسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور طبعی موت فوت ہو کر دفن ہوئے۔
(العظمة: 4/1443-1484)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے
’’ذو القرنین نیک بادشاہ تھے، اللہ کو ان کا عمل پسند آیا تو اپنی کتاب میں ذکر کیا، انہیں مددِ الٰہی حاصل تھی اور خضر علیہ السلام ان کے وزیر تھے۔‘‘
(تاریخ دمشق: 17/339، البدایة والنهاية: 2/538، سند ضعیف)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کی وضاحت
کچھ لوگ ذو القرنین کے فرشتہ ہونے کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف قول منسوب کرتے ہیں۔ لیکن:
- یہ قول ثابت نہیں: روایت کی سند منقطع اور ضعیف ہے۔ خالد بن معدان ثقہ راوی ہیں، لیکن ان کی اکثر روایات مرسل ہوتی ہیں۔
(سیر أعلام النبلاء: 4/537) - صحیح ثابت ہونے پر بھی معنی کا احتمال: اگر یہ قول صحیح ہوتا تو بھی اس میں یہ مراد ہو سکتی ہے کہ ذو القرنین کا نام کسی فرشتے کے نام جیسا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا۔
(روح المعانی: 8/346)
خلاصۂ کلام
ذو القرنین ایک نیک اور عادل بادشاہ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیاوی اسباب عطا فرمائے۔ ان کے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ان کے بارے میں وہی بات مانی جائے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے، اور اسی سے نصیحت اور عبرت حاصل کی جائے۔
اختتامی دعا
اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور حق بات پر ثابت قدم رکھے۔ وما توفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔