سوال
میں ایک سرکاری محکمے کا ملازم ہوں۔ ہمارے محکمے میں نمازِ ظہر کا وقت 1:15 سے 1:45 تک (یعنی آدھا گھنٹہ) مقرر ہے۔ آفس میں نماز کے لیے ایک مخصوص جگہ مختص ہے اور ایک قاری صاحب، جو دیوبندی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، امام مقرر ہیں۔ لیکن وہ باقاعدگی سے جماعت نہیں کرواتے بلکہ کبھی کوئی آگے ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی، یعنی کبھی بریلوی امام بن جاتا ہے۔ امام صاحب نماز پڑھاتے وقت قیام مختصر کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا میں اول وقت (تقریباً 12:30) اپنی نماز ادا کر لیا کروں، یا پھر با جماعت نماز ادا کیا کروں جس میں کوئی بھی شخص امام بن جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی عقیدے کا ہو اور نماز بھی تیز پڑھاتا ہو؟
الجواب
مذکورہ صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ کوشش کریں کہ نماز کے اول وقت پر اپنے ساتھیوں کو نماز کے لیے تیار کریں، اور اگر آپ خود امامت کروا سکتے ہیں تو خود نماز پڑھائیں۔ اگر آپ امامت نہیں کروا سکتے تو کسی ایسے ساتھی کو آگے کر دیں جس کا عقیدہ درست ہو اور وہ صریح مشرک نہ ہو۔ کیونکہ جس کا شرک واضح ہو، اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی۔
اس صورتِ حال میں اگرچہ تنہا نماز پڑھنا درست ہے، لیکن اس طرح آپ جماعت کے ثواب سے محروم رہ جائیں گے۔ لہٰذا، تنہا نماز پڑھنے کی بجائے اس کا کوئی مناسب حل نکالنے کی کوشش کریں۔ یا تو ساتھیوں کو تیار کریں اور کسی موحد کو امام بنائیں، یا پھر خود ہی چھوٹی جماعت کروا لیا کریں۔
شیخ صالح المنجد کا فتویٰ:
شیخ صالح المنجد سے اسی قسم کا ایک سوال کیا گیا تھا۔ سوال تھا کہ اگر سلفی اہل حدیث مسجد نہ ملے اور عصر کی نماز کا وقت ڈیوٹی پر ہو جائے، تو کیا ایسی صورت میں نماز مؤخر کر کے حنفی مسجد میں جماعت سے پڑھیں یا اول وقت میں اکیلے پڑھیں؟
جواب: اولاً، بغیر کسی ضرورت کے نماز مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ سنت یہ ہے کہ نماز اول وقت میں ادا کی جائے۔ اگرچہ جماعت کا ثواب زیادہ ہے، لیکن نماز وقت کے اندر ہونا ضروری ہے، یعنی سورج زرد ہونے سے پہلے عصر کی نماز ادا ہو جائے۔
بدعتی امام کے پیچھے نماز:
بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں یہ ہے کہ اگر امام کا عقیدہ مسلمان ہونے کے دائرے میں آتا ہے، اور وہ صریح شرک کا مرتکب نہیں ہے، تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے۔ لیکن اگر اس کی بدعت شرکیہ ہے، جیسے غیر اللہ کو پکارنا یا اولیاء سے مدد مانگنا، تو اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ دونوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بدعتی شخص کے پیچھے نماز ادا کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچتی ہو۔ اگر ایسا شخص ہو جو شرکیہ اعمال کرتا ہے، تو اس کے پیچھے نماز درست نہیں۔
خلاصہ:
کوشش کریں کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جماعت کا اہتمام کریں اور کسی صحیح العقیدہ شخص کو امام بنائیں۔
اگر جماعت کا صحیح انتظام ممکن نہ ہو تو اول وقت میں نماز اکیلے پڑھنے کا بھی جواز ہے۔
صریح شرک کرنے والے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔
جماعت کی فضیلت کی وجہ سے بہتر ہے کہ چھوٹی جماعت بنالی جائے، بشرطیکہ امام کا عقیدہ درست ہو۔
اللہ آپ کی رہنمائی کرے اور آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔