سوال
سوشل میڈیا پر یہ جملے گردش کر رہے ہیں:
"سنا تھا ایک حافظ پورے خاندان کو بخشوا سکتا ہے آج یقین ہوگیا ہے”
"شریف خاندان کو ہی دیکھ لو، پچھلے اور آنے والے بھی سارے گناہ معاف”
کیا یہ جملے دین کا مذاق اڑانے کے زمرے میں آتے ہیں؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ جملے دین کے شعائر اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے زمرے میں آتے ہیں، اور ان کا استعمال لاعلمی یا دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے۔ اس پر درج ذیل نکات اہم ہیں:
➊ دین کا مذاق اڑانے کا حکم:
دین، اس کے شعائر، یا قرآن و سنت کی تعلیمات کا مذاق اڑانا انتہائی سنگین گناہ ہے اور کفر کے قریب ہو سکتا ہے، اگر ایسا ارادتاً اور قصداً کیا جائے۔
➋ بے خبری میں جملے کہنے والوں کی اصلاح:
اگر کوئی شخص لاعلمی یا غیر ارادی طور پر ایسے جملے کہہ رہا ہو، تو اسے محبت اور حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے تاکہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور باز رہے۔
➌ جان بوجھ کر دین کا مذاق اڑانے والوں کا رویہ:
جو شخص ارادتاً اور جان بوجھ کر دین کا مذاق اڑائے، اس سے سختی سے بازپرس کرنی چاہیے۔
اس پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اللہ سے توبہ کرے اور آئندہ ایسے الفاظ کہنے سے باز رہے۔
➍ موجودہ دور کا مسئلہ:
آج کے الحادی ماحول میں دین کے شعائر اور علما پر طنز کرنا عام ہو گیا ہے۔
یہ رویہ صرف لاعلمی کا نتیجہ نہیں بلکہ بعض اوقات دین کے خلاف ارادتاً منفی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
خلاصہ
یہ جملے دین کا مذاق اڑانے کے زمرے میں آتے ہیں، اور ان کی اصلاح ضروری ہے۔
لاعلمی کے باعث ایسے جملے کہنے والوں کو نرمی سے سمجھایا جائے۔
دانستہ طور پر دین کا مذاق اڑانے والوں کو توبہ کی طرف راغب کرنا اور ان کے عمل کی مذمت کرنا شرعی فریضہ ہے۔