دین اسلام انسانوں، حیوانوں اور جمادات سب کے لیئے رحمت
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

دین اسلام، اہل دنیا کے لیے رحمت کا دین ہے:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾
[الأنبياء: 107]
”اور ہم نے آپ کو سارے جہاں والوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمت لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے وہ توحید باری تعالیٰ اور حکمت ہے، یہی دین اسلام اور تمام ادیانِ سماویہ کی اصل اور بنیاد ہے۔
اس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دُنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیا ہے یعنی جس دین کے ساتھ وہ دنیا میں مبعوث ہوئے وہ جن و انس کے لیے سراپا رحمت ہے، دنیا و آخرت کی سعادت اسی کو قبول کر لینے میں ہے، اس لیے بطور مبالغہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت کہا گیا ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ مشرکوں پر بددعا کر دیجیے ، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”میں لعنت بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ “
صحیح مسلم کتاب البر والصلة، رقم: 2599
اس لیے اس آیت کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جو ایمان لے آیا، اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہان میں رحمت تمام ہوگئی، اور جو ایمان نہیں لایا وہ دنیاوی عذاب سے محفوظ ہو گیا، گزشتہ قوموں پر مسخ صورت ، زمین کے اندر دھنس جانے اور پتھروں کی ، بارش کی شکل میں آتا رہا ہے۔
تفسیر طبری: 552/18

اہل ایمان کے لیے رحمت:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
[التوبة: 128]
”تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف آئے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں، جن پر تمہاری تکلیف والی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ، اہل ایمان کے لیے بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ “

کفار اور مشرکین کے لیے رحمت کا پہلو:

دین اسلام کا یہ امتیاز ہے کہ وہ جہاں اہل ایمان و اسلام کے لیے رحمت کا معاملہ کرتا ہے، کئی مقامات پر کفار ومشرکین کے ساتھ انسانیت کے ناطے رحمت وشفقت کا معاملہ کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:
يايها الناس! إنما أنا رحمة مهداة
مستدرك حاكم: 35/1- معجم صغیر، طبرانی: 51/1 – السلسلة الصحيحة، رقم: 490
”اے لوگو! میں تو صرف ایک تحفہ رحمت ہوں۔ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ”ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشرکین کو بددعا دینے کی درخواست کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا ، بلکہ مجھے تو سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ “
ابن جرير بحواله ابن کثیر: 487/3
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مومنوں کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت میں رحمت تھے اور غیر مومنوں کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم صرف دنیا میں ہی رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے جیسے کہ پہلی امتوں کے کافروں پر یہ عذاب آئے تھے۔
ايضاً

حیوانات اور جمادات کے لیے رحمت:

دین اسلام کا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ جہاں انسانیت کے لیے رحمت و شفقت کا معاملہ کرتا ہے، حیوانات اور جمادات کے لیے بھی رحمت و شفقت کا بازو پھیلاتا ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے پر داغ لگایا گیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میں نے جانور کے چہرے پر داغ لگانے والے یا جانوروں کے چہرے پر مارنے والے پر لعنت کی ہے۔ پھر آپ نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ “
سن ابوداؤد، کتاب الجهاد، رقم: 2564۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کر دی
صحیح بخاری، کتاب المساقاة، رقم: 3467۔ صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 2245
اور اس کے برعکس ایک عورت بلی پر ظلم کرنے کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی۔
صحیح بخاری، کتاب کتاب الأنبياء، رقم: 3482۔ صحیح مسلم، رقم: 2243
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ چیونٹی کو مارنے سے منع فرمایا۔
سنن ابوداؤد، کتاب الأدب، رقم: 5267۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
جانوروں کو احسان کے ساتھ ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔
صحیح مسلم رقم: 1955/75
جمادات کے ساتھ ساتھ رحمت کا معاملہ دیکھیے گا کہ احد پہاڑ نے حرکت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تھمنے کا حکم دیا تو وہ فور ساکن ہو گیا۔
صحیح بخاری، رقم: 7333۔ صحیح مسلم، رقم: 1365/464
روتے ہوئے کھجور کے تنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست شفقت رکھا تو وہ آہستہ آہستہ خاموش ہو گیا۔
سنن ترمذی، کتاب الجمعة، رقم: 505 سلسلة صحيحة، رقم: 2174
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے۔
سنن ترمذی، کتاب الجهاد، رقم: 1708 ، 1709
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مرغ کو برا مت کہو کیونکہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔
سنن ابوداؤد، کتاب الأدب، رقم: 1501- المشكاة، رقم: 4136۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے چہروں پر مارنے سے منع فرمایا ۔
سنن ترمذی، کتاب الجهاد، رقم: 1710۔ صحیح ابوداؤد، رقم: 2310
چھپکلی کو مارنے کی اجازت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مارا اس کے لیے اتنا ثواب ہے۔ اور جس نے دوسری ضرب میں مارا اسے اتنا ثواب ہے۔ یعنی پہلے سے کم ۔ اور جس نے تیسری چوٹ میں مارا اس کے لیے اتنا ثواب ہے۔ یعنی دوسری بار سے بھی کم ۔ “
سنن ابو داؤد، کتاب الأدب، رقم: 5263- محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چھپکلی کو پہلی ہی چوٹ میں مارا اس کے لیے (70) نیکیاں ہیں ۔“
سنن ابوداؤد، کتاب الأدب، رقم: 5264۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ پہلی چوٹ مار دینے سے سو نیکیاں ملتی ہیں ۔
صحیح مسلم کتاب السلام، رقم: 2240
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق سفر تھے، پس ایک دفعہ آپ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ہم نے وہ دونوں پکڑ لیے تو وہ چڑیا پھڑ پھڑانے لگی، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے کس نے اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف پہنچائی ہے، اسے اس کے بچے لوٹا دو ۔ اور پھر آپ نے چیونٹیوں کی بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے کس نے جلایا ہے؟ ہم نے عرض کیا، ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کے اب کے سوا کسی شخص کے لیے زیبا نہیں کہ وہ کسی کو آگ سے تکلیف پہنچائے ۔
سنن ابوداؤد، کتاب الجهاد، رقم: 2675۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے