دورانِ احرام ممنوع افعال
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے دریافت کیا گیا کہ احرام باندھنے والا کیا لباس پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ قمیض ، پگڑی ، شلوار و پاجامہ ، ٹوپی اور موزے نہ پہنے ۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس جوتے نہیں ہیں تو وہ موزے پہن لے اور اسے چاہیے کہ دونوں موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کوئی کپڑا نہ پہنے جسے زعفران اور درس (ایک زرد رنگ کی بوٹی ) سے رنگا گیا ہو ۔“
[مسلم: 1177 ، كتاب الحج: باب ما يباح للمحرم بحج أو عمره وما لا يباح ، بخاري: 1542 ، ابو داود: 1824 ، ترمذي: 833 ، نسائي: 131/5 ، ابن ماجة: 2929 ، مؤطا: 324/1 ، دارقطني: 230/2 ، حميدي: 626 ، ابن الجارود: 416 ، شرح معاني الآثار: 134/2 ، بيهقى: 46/5 ، أبو يعلى: 5425 ، ابن حبان: 3789]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من لم يجــد نـعـلـيـن فليلبس خفين ومن لم يجد إزارا فليلبس سراويل
”جس کے پاس دو جوتیاں نہ ہوں وہ دو موزے پہن لے اور جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ شلوار پہن لے ۔“
[مسلم: 1179 أيضا ، أحمد: 323/3 ، بيهقى: 51/5 ، طبراني اوسط كما فى المجمع: 222/3]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا تنتقب المرأة المحرمة ولا تلبس القفازين
”احرام والی عورت نقاب اور دستانے استعمال نہ کرے ۔“
[بخاري: 1838 ، كتاب جزاء الصيد: باب ما ينهى من الطيب للمحرم والمحرمة ، ابو داود: 1825 ، أحمد: 22/2 ، ترمذي: 833 ، نسائي: 133/5 ، بيهقي: 46/5]
◈ یاد رہے کہ نقاب نہ پہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام والی عورت غیر محرموں سے چہرہ بھی نہیں چھپائے گی بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا مخصوص سلا ہوا کپڑا جو پردہ کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے وہ نقاب نہ پہنے علاوہ ازیں اپنی چادر کے ساتھ غیر محرموں سے اپنا چہرہ چھپائے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں تھیں اور قافلے ہمارے سامنے سے گزرتے تھے:
فإذا حاذوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها فإذا جاوزونا كشفنا
”جب وه سامنے آتے تو ہم اپنی چادریں منہ پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو منہ کھول لیتیں ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 399 ، إرواء الغليل: 1024 ، المشكاة: 2690 ، ابو داود: 1833 ، كتاب المناسك: باب فى المحرمة تغطى وجهها ، ابن ماجة: 2935 ، ابن الجارود: 418 ، دارقطني: 295/2 ، بيهقي: 48/5 ، ابن خزيمة: 2691]
وہ ابتدا میں ہی خوشبو نہ لگائے
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم آدمی کی وفات پر حکم دیا تھا:
ولا تمسوه بطيب
”اسے خوشبو نہ لگاؤ ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 2671 ، كتاب الحج: باب غسل المحرم بالسدر ، نسائي: 2856]
البتہ حالت احرام سے پہلے خوشبو لگانا جائز ہے گو اس کی خوشبو حالت احرام میں بھی آتی رہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كنت أطيب رسول الله لإحرامه قبل أن يحرم ولحله قبل أن يطوف بالبيت
”احرام باندھنے سے پہلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے کے وقت اور احرام کھولنے کے وقت خوشبوں لگاتی تھی ، اس سے پہلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف کریں ۔“
[بخاري: 1539 ، كتاب الحج: باب الطيب عند الإحرام ، مسلم: 789 ، نسائي: 137/5 ، دارمي: 33/2 ، أحمد: 130/6 ، حميدي: 213 ، شرح معاني الآثار: 130/2 ، بيهقي: 34/5 ، ابن أبى شيبة: 13478]
کسی عذر کے بغیر اپنے بال نہ ترچھوائے
➊ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحى فلا يمس من شعره وبشره شيئا
”جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ کاٹے۔ “
[مسلم: 1977 ، كتاب الأضاحى: باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة ]
اس سنت پر عمل کرنا حاجی کے لیے بالا ولٰی ضروری ہے۔
➋ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَلَا تَحْلِقُوا رُؤُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الهَدَى مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مِّرِيضًا….. أَو نُسُكِ [البقرة: 196]
”اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے ) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے ، خواہ صدقہ کر دے ، خواہ قربانی کر دے۔“
➌ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے دن میرے پاس آکر کھڑے ہوئے تو جوئیں میرے سر سے برابر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ جوئیں تو تمہارے لیے تکلیف کا باعث ہیں۔ میں نے کہا ”جی ہاں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو سر منڈا لے اور تین دن کے روزے رکھ لے یا ایک فرق (تین صاع) غلے سے چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا جو میسر ہو اس کی قربانی کر دے ۔“
[بخاري: 1815 ، كتاب العمرة: باب قول الله تعالى: أو صدقة ، مسلم: 1201 ، ابو داود: 1856 ، ترمذي: 953 ، نسائي: 195/5 ، ابن ماجة: 379 ، بيهقى: 55/5 ، مؤطا: 417/1 ، طيالسي: 1026 ، أحمد: 241/4]
شہوانی حرکات ، نافرمانی اور جھگڑے سے اجتناب کرے
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
فَلا رَقَث وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَج [البقرة: 197]
” (جو بھی حج کرے ) وہ اپنی بیوی سے قربت کے تعلقات قائم کرنے ، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرے ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من حج ولم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمه
”جس نے حج کیا اور نہ کوئی فحش بات کی اور نہ کوئی گناہ کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس لوٹے گا کہ جیسے اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔“
[بخاري: 1521 ، كتاب الحج: باب فضل الحج المبرور ، مسلم: 1350]
◈ ”رفث“ کا معنی جماع کیا گیا ہے نیز امام ازہریؒ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ ہر ایسے کام کو شامل ہے جس کی مرد عورت سے خواہش رکھتا ہے۔ محققین کی ایک جماعت بھی اسی کی قائل ہے۔
[فتح الباري: 382/3 ، تاج العروس: 625/1 ، مجموع الفتاوى: 107/26]
نہ نکاح کرے ، نہ نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينكح المحرم ولا ينكح ولا يخطب
”محرم شخص نہ نکاح کرے ، نہ نکاح کرائے اور نہ ہی نکاح کا پیغام بھیجے ۔“
[مسلم: 1409 ، كتاب النكاح: باب تحريم نكاح المحرم وكراهة خطبته ، موطا: 348/1 ، ابو داود: 1841 ، ترمذي: 840 ، ابن ماجة: 1966 ، نسائي: 192/5 ، ابن الحارود: 444 ، شرح معاني الآثار: 268/2 ، دار قطني: 267/2 ، بيهقي: 65/5 ، مسند شافعي: 316/1 ، أحمد: 316/1 ، دارمي: 141/2 ، طيالسي: 1030]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی جس روایت میں ہے کہ :
أن النبى تزوج ميمونة وهو محرم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ۔“
[بخاري: 1837 ، كتاب الحج: باب تزويج المحرم ، مسلم: 1410 ، ابو داود: 1844 ، ترمذي: 842 ، نسائي: 191/5 ، ابن ماجة: 1965]
وہ محض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا وہم ہے جیسا کہ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہو گیا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے حالت احرام میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ۔
[صحيح مقطوع: صحيح ابو داود: 1628 ، كتاب المناسك: باب المحرم يتزوج ، ابو داود: 1845]
مزید برآن حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا اپنا قول بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے جیسا کہ انہوں نے فرمایا:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت و نحن حلا لان بسرف ”ہم دونوں سرف مقام پر حلال (یعنی حالت احرام میں نہیں) تھے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1626 ، كتاب المناسك: باب المحرم يتزوج ، ابو داود: 1843 ، ترمذي: 845 ، ابن ماجة: 1964 ، دار قطني: 262/3 ، ابن حبان: 443/9 ، بيهقي: 66/5 ، طحاوي: 270/2 ، احمد: 332/6]
(جمہور ) حالت احرام میں شادی کرنا یا کروانا حرام ہے۔
(احناف) محرم کے لیے اس حالت میں شادی کرانا بھی جائز ہے جیسے اس کے لیے جماع کی غرض سے کوئی لونڈی خرید لینا جائز ہے ۔
[شرح المهذب: 296/7 ، حلية العلماء: 293/3 ، الهداية: 193/1 ، الحجة على أهل المدينة: 209/2 ، المغنى: 162/5 ، هداية السالك: 620/2 ، فتح البارى: 528/4 ، نيل الأوطار: 358/3]
(راجح) جمہور کا موقف برحق ہے جیسا کہ گذشتہ صحیح احادیث اس کا واضح ثبوت ہیں ۔
(شوکانیؒ ، عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار: 357/3 ، تحفة الأحوذى: 680/3]
کسی شکار کوقتل نہ کرے اور جو اسے قتل کرے گا اس پر اس شکار کے برابر جانور دینا لازم ہے جس کے متعلق دو دیانتدار شخص فیصلہ کریں گے
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات اس پر شاہد ہیں:
➊ يأيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [المائدة: 95]
”اے ایمان والو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو کسی شکار کو مت قتل کرو۔“
➋ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمُ حُرَّمًا [المائدة: 96]
”جب تک تم حالت احرام میں ہو خشکی (کے جانوروں) کا شکار تم پر حرام ہے۔ “
واضح رہے کہ صید (شکار) سے مراد ہر ایسا جنگلی جانور ہے جو ماکول اللحم ہو ۔
(شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ ) ماکول اللحم ہو یا غیر ماکول اللحم سب کا شکارممنوع ہے ، لٰہذا اگر کوئی درندے ، چیتے یا اس کی مثل کسی جانور کو قتل کرے گا تو اس پر ضمانت (یعنی فدیہ) دینا لازم ہو گا ۔
[تفسير فتح البيان: 313/2]
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :
وَمَنْ قَتَلَهُ مِنكُمُ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاء مثلُ مَا قَتَلَ …. ذُوالْنتِقَامٍ [المائدة: 95]
”تم میں سے جو شخص اسے (یعنی شکار کو ) جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہو گا جو کہ مساوی ہو گا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے ۔ اس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کر دیں۔ خواہ وہ فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے اور خواہ کفارہ مساکین کو دے دیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لیے جائیں۔ تا کہ اپنے کیے کی شامت کا مزہ چکھے۔ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ (گناہ) کو معاف کر دیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ تعالیٰ انتقام لے گا اور اللہ تعالیٰ زبر دست انتقام لینے والا ہے ۔“
(جمہور ) بھول کر یا غلطی سے بھی قتل ہو جائے تو فدیہ واجب ہو گا۔
یاد رہے کہ جانور کے مساوی ہونے سے مراد خلقت یعنی قد و قامت میں مساوی ہونا ہے ، قیمت میں مساوی ہونا نہیں۔
جمہور علماء ، امام احمدؒ ، امام شافعیؒ اور امام مالکؒ اسی کے قائل ہیں۔ مثلا اگر ہرن کو قتل کیا ہے تو اس کی مثل بکری ہے۔ گائے کی مثل نیل گائے ہے وغیرہ۔ البتہ جس جانور کا مثل نہ مل سکتا ہو وہاں اس کی قیمت بطور فدیہ لے کر مکہ پہنچا دی جائے گی ۔ اس کے برخلاف احناف کا موقف ہے یعنی مساوی ہونے سے مراد قیمت میں مساوی ہونا ہے۔
[تفسير فتح القدير: 77/2 – 78 ، تفسير فتح البيان: 314/2 ، الروضة الندية: 608/1]
دو دیانتدار شخص یہ فیصلہ کریں گے کہ فلاں جانور اس کی مثل اور مساوی ہے اور اگر جانور نہ مل سکے تو اتنی قیمت اس کی مثل ہے ۔ پھر اس قیمت سے غلہ خرید کر حرم کے فقراء و مساکین میں ہر مسکین کو ایک مرد کے حساب سے تقسیم کر دیا جائے گا البتہ احناف ہر مسکین کو دو مد تقسیم کرنے کے قائل ہیں ۔
[أيضا]
اور وہ شخص کسی دوسرے شخص کا شکار کیا ہوا جانور بھی نہیں کھا سکتا الا کہ شکار کرنے والا محرم نہ ہو اور نہ ہی اس نے اس کے لیے شکار کیا ہو
حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وحشی گدھا بطور تحفہ بھیجا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”ابواء یاودان“ مقام پر تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گدھا انہیں واپس کر دیا اور فرمایا:
إنا لم نرده عليك إلا أنا حرم
”ہم نے یہ اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم احرام والے ہیں ۔“
[بخاري: 1825 ، كتاب الحج: باب إذا أهدى للمحرم حمارا وحشيا حيا لم يقبل ، مسلم: 1193 ، ترمذي: 849 ، نسائي: 184/5 ، ابن ماجة: 3090 ، بيهقى: 191/5 ، أحمد: 37/4 ، مؤطا: 232 ، حميدي: 783 ، عبدالله بن أحمد فى زوائد المسند: 71/4]
معلوم ہوا کہ محرم شخص جب تک حالت احرام میں ہے اس کے لیے شکار کا گوشت کھانا جائز نہیں لیکن مندرجہ ذیل حدیث بظاہر اس کے مخالف معلوم ہوتی ہے: حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے (ان کے اس قصے کے متعلق جس میں انہوں نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا اور وہ محرم بھی نہیں تھے ) مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: جبکہ وہ احرام والے تھے:
هل منكم أحد أمره أو أشار إليه بشيئ
”کیا تم میں سے کسی نے اسے (شکار کا ) حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا تھا؟“ انہوں نے کہا
”نہیں ۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فكلوا ما بقى من لحمه
”پھر اس کے بقیہ گوشت سے تم کھا لو ۔“
[بخاري: 2914 ، كتاب الجهاد والسير: باب ما قيل فى الرماح ، مسلم: 1196 ، ابو داود: 1852 ، ترمذي: 847 ، نسائي: 182/5 ، ابن ماجة: 3093 ، أحمد: 182/5 ، مؤطا: 350/1]
ان احادیث میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ محرم کے لیے شکار کھانا اس وقت حرام ہے جب اس نے اس کا حکم دیا ہو یا اس کی طرف اشارہ کیا ہو جیسا کہ گزشتہ حدیث میں یہی بات موجود ہے اور جب شکار کسی محرم کے لیے ہی کیا گیا ہو (تب کھانا ممنوع ہے) جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ”حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
إنما اصطدته لك
”میں نے تو صرف آپ کے لیے شکار کیا تھا۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شکار سے کچھ بھی تناول نہیں فرمایا۔
[نيل الأوطار: 368/3]
علاوہ ازیں ایک اور حدیث بھی اس کی مؤید ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صيد البر لكم حلال وأنتم حرم ما لم تصيدوه أو يصاد لكم
”حالت احرام میں زمین کا شکار تمہارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو اور نہ ہی وہ تمہارے لیے شکار کیا گیا ہو۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 401 ، كتاب المناسك: باب لحم الصيد للمحرم ، ابو داود: 1851 ، ترمذي: 846 ، نسائي: 187/5 ، مسند شافعي: 322/1 ، أحمد: 362/3 ، ابن الحارود: 437 ، شرح معاني الآثار: 171/2 ، دار قطني: 290/2 ، حاكم: 452/1 ، بيهقى: 190/5 ، ابن خزيمة: 2641 ، ابن حبان: 980 ، شرح السنة: 185/4]
درج بالا صورتوں کے علاوہ محرم شخص شکار کا گوشت کھا سکتا ہے۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(احناف) محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانا کسی صورت میں جائز نہیں۔
[الحاوى: 302/4 ، الأم: 319/2 ، المبسوط: 75/4 ، الاختیار: 168/1 ، الكافي: ص/ 155 ، نيل الأوطار: 364/3 ، كشاف القناع: 434/2 ، هداية السالك: 669/2 ، الخرشي: 370/2]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
(شوکانی ؒ ) انہوں نے اسی کو برحق قرار دیا ہے۔
[نيل الأوطار: 364/3]
(امیر صنعانیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[سبل السلام: 949/2]
البتہ حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے آیت:
حُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُما [المائدة: 96]
”جب تک تم احرام میں ہو تم پر زمین کا شکار حرام ہے۔ “
کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے ہر حال میں شکار کا گوشت کھانے کی ممانعت مروی ہے۔
[سبل السلام: 949/2 ، الروض النضير: 221/3]
اور اذخر گھاس کے سوا حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز فرمایا:
”بلاشبہ یہ شہر حرام ہے…..“
لا يعضد شو كه …..
”پس اس کا کانٹا نہ کاٹا جائے ۔“
نہ اس کے شکار ہانکے جائیں اور اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ! اذخر گھاس کی تو اجازت دے دیجیے کیونکہ یہاں یہ کاریگروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إلا الإذخر
”اذخر کی اجازت ہے ۔“
[بخارى: 1834 ، كتاب العمرة: باب لا يحل القتال بمكة ، مسلم: 1353 ، ابو داود: 2480 ، نسائي: 146/7 ، ترمذي: 1950 ، دارمي: 239/2 ، عبد الرزاق: 9713 ، ابن الجارود: 1030 ، ابن حبان: 4845 – الإحسان ، بيهقي: 195/5 ، طبراني كبير: 10944 ، شرح السنة: 520/5]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ولا يعضد شجرها
”اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے ۔“
[بخاري: 112 ، كتاب العلم: باب كتابة العلم]
(ابن قدامہؒ) جو درخت از خود اکھڑ جائے اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
[المغنى: 187/5]
محرم کے لیے پانچ فاسق (موذی ) جانوروں کو قتل کرنا جائز ہے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خمس فواسق يقتلن فى الحل والحرم: العقرب والحدأة والغراب والفارة والكلب العقور
”پانچ جانور فاسق ہیں لٰہذا انہیں حل اور حرم (ہر جگہ میں) قتل کر دیا جائے؟ بچھو ، چیل ، کوا ، چوہیا اور کاٹنے والا کتا ۔“
[بخارى: 3314 ، كتاب بدء الخلق: باب إذا وقع الذباب فى شراب أحدكم ، مسلم: 1198 ، ترمذي: 839 ، نسائي: 188/5 ، دارمي: 36/2 ، دار قطني: 231/2 ، عبد الرزاق: 8374 ، شرح معاني الآثار: 166/2 ، بيهقي: 209/5 ، ابو يعلي: 4503 ، ابن حبان: 3971 – الإحسان]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خمس من الدواب من قتلهن وهو محرم فلا جناح عليه …..
”حالت احرام میں جس نے پانچ قسم کے جانوروں کو قتل کیا اس پر کوئی گناہ نہیں ….. (اس میں بھی گذشتہ حدیث والے جانور ہی مذکور ہیں ) ۔“
[بخارى: 3315 – أيضا ، مسلم: 1199 ، موطا: 356/1 ، ابن ماجة: 3088 ، دارمي: 36/2 ، أحمد: 32/2 ، شرح معاني الآثار: 165/2 ، مسند شافعي: 319/1 ، الحلبة لأبي نعيم: 230/9 ، بيهقي: 209/5]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں الحية ”سانپ“ کا بھی ذکر ہے۔
[مسلم: 1200 ، كتاب الحج: باب ما يندب للمحرم وغيره قتله ، ابو داود: 1846 ، نسائي: 190/5 ، أحمد: 8/2 ، ابن الجارود: 440 ، شرح معاني الآثار: 165/2 ، بيهقي: 209/5 ، حميدي: 619 ، أبو يعلى: 5428]
(بغویؒ) مذکورہ جانوروں کو حالت احرام میں قتل کرنے کے جواز پر اہل علم متفق ہیں۔ علاوہ ازیں امام شافعیؒ نے ہر ماکول اللحم جانور کو بھی انہی پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو شخص حالتِ احرام میں یا حرم میں ان میں سے کسی (یعنی ماکول اللحم میں سے کسی) جانور کو قتل کر دے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں۔
[الروضة الندية: 612/1]
مدینہ کے حرم کا شکار اور اس کے درخت مکہ کے حرم کی طرح ہیں
➊ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن إبراهيم حرم مكة و دعا لها و حرمت المدينة كما إبراهيم حرم مكة
”ابراہیم علیہ السلام نے ملکہ کو حرام قرار دیا (یعنی ان کی دعا کی وجہ سے اسے حرام کیا گیا ) اور اس کے لیے دعا فرمائی۔ میں نے مدینہ کو اسی طرح حرام قرار دیا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام کیا تھا۔“
[بخاري: 2129 ، كتاب البيوع: باب بركة صاع النبى ، مسلم: 1360]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مدینہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے۔ “
لا يقطع شجرها ولا يحدث فيها حدث
”اس حد میں نہ کوئی درخت کاٹا جائے اور نہ کوئی بدعت ایجاد کی جائے ۔“
[بخاري: 1867 ، كتاب فضائل المدينة ، باب حرم المدينة]
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا يصاد صيدها
”اور اس (یعنی مدینہ) کا شکار نہ کیا جائے ۔“
[مسلم: 1362 ، كتاب الحج: باب فضل المدينة ، عبد بن حميد: 1076]
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
المدينة حرام ما بين عير إلى ثور
”مدينة عير ، (مدینہ کے جنوب میں ایک پہاڑ ہے ) سے، ثور (مدینہ کے شمال میں ایک گول سا پہاڑ ہے ) کے درمیان حرم ہے ۔“
[بخاري: 1870 ، كتاب الحج: باب حرم المدينة ، مسلم: 1370 ، ابو داود: 2034 ، ترمذي: 2127 ، احمد: 81/1 ، نسائي فى الكبرى: 486/2 ، أبو يعلى: 263 ، ابن حبان: 37/7 – الإحسان ، شرح معاني الآثار: 318/4 ، طيالسي: 1200 ، شرح السنة: 187/4]
(جمہور) مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے ۔ اس کا شکار اور درخت حرام ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) مدینہ کا حرم فی الحقیقت حرم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے شکار کو قتل کرنا اور اس کا درخت کاٹنا حرام ہے۔
[شرح المهذب: 471/7 ، حلية العلماء: 323/3 ، الخرش: 373/2 ، المغني: 195/5 ، الإنصاف: 559/3 ، نيل الأوطار: 379/3]
مگر جو شخص اس کے درخت یا اس کی گھاس کاٹے گا اس کا لباس یا ہتھیار وغیرہ اسے ایسی حالت میں پانے والے کے لیے حلال ہوں گے
عامر بن سعد سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عقیق مقام میں موجود اپنے محل کی طرف سوار ہو کر گئے ۔ انہوں نے ایک غلام کو دیکھا جو درخت کاٹ رہا تھا یا اس کے پتے جھاڑ رہا تھا تو انہوں نے اس سے اس کے کپڑے وغیرہ چھین لیے ۔ پس جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ واپس لوٹے تو غلام کے مالک آپ کے پاس آئے اور گفت و شنید کی کہ آپ ان کے غلام کو واپس کر دیں یا وہ چیز واپس لوٹا دیں جو انہوں نے ان کے غلام سے چھینی ہے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:
معاذ الله أن أراد شيئا نفلنيه رسول الله
”اللہ کی پناہ ہے کہ میں کچھ بھی واپس کروں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو مجھے نفل (یعنی زائد ) چیز عطا فرمائی ہے ۔“ اور پھر انہوں نے اسے واپس لوٹانے سے انکار کر دیا۔
[أحمد: 168/1 ، مسلم: 1364 ، كتاب الحج: باب فضل المدينة وعاء النبى فيها بالبركة ]
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حرم کو حرام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:
من رأيتموه يصيد فيه شيئا فلكم سلبه
”جسے تم اس میں شکار کرتا ہوا دیکھو تو تمہارے لیے اس سے چھینا ہوا مال جائز ہے۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1791 ، كتاب المناسك: باب فى تحريم المدينة ، أحمد: 170/1 ، ابو داود: 2037 ، شيخ البانيؒ نے اسے صحيح تو كها هے ليكن ”يصيد“ كے لفظ كو منكر كها هے اور فرمايا كه يه لفظ محفوظ هيں ”يقطعون“ ]
وادی وج کا شکار اور اس کے درخت بھی حرام ہیں
وج طائف میں ایک وادی کا نام ہے۔
[نيل الأوطار: 382/3]
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان صيد وج وعضاهه حرام محرم الله
”بلاشبہ وادی وج کا شکار اور اس کے (کانٹے دار ) درخت اللہ کے لیے حرام ہیں۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 441 ، كتاب المناسك: باب فى مال الكعبة ، ضعيف الجامع: 1875 ، المشكاة: 2749 ، التعليقات الرضية على الروضة الندية ، ابو داود: 2032 ، التاريخ الكبير للبخاري: 140/1 ، حميدي: 63 ، شيخ احمد شاكر نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على الروضة الندية للشيخ صبحي خلاق: 615/1 ، امام شافعيؒ نے بهي اسے صحيح كها هے۔ أيضا ، امام ابن قيمؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ أعلام الموقعين: 35/1 ، امام احمدؒ نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ المغني: 194/5]
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام ابو داودؒ فرماتے ہیں کہ وادی وج کی حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف میں اترنے اور ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے تھی۔
(شافعیؒ) اس کی حرمت برقرار ہے (انہوں نے گذشتہ حدیث سے استدلال کیا ہے حالانکہ وہ ضعیف ہے )۔
(نواب صدیق حسن خانؒ) یہی بات برحق ہے۔
[الروضة الندية: 615/1]
(راجح) وادی وج کا شکار اور اس کے درخت حلال و مباح ہیں کیونکہ اصل اباحت ہے اور اصل سے منتقل کر دینے والی مذکورہ حدیث قابل حجت نہیں۔
(ابن قدامہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[المغنى: 194/5]