دعوت کی آزمائش اور نبی ﷺ کی رحمت
تحریر: فضل اکبر کا شمیری

دعوت اور آزمائش

سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ نے فرمایا:

تمھاری قوم کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں خود کو پیش کیا تھا لیکن اس نے میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی غمگین ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا تب مجھے کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبریل اس میں موجود ہیں۔ انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ نے آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن لی ہیں اور جو انھوں نے رد کیا وہ بھی بن چکا۔ آپ کے پاس اللہ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، اس نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد ! پھر اس نے بھی وہی بات کہی :

آپ جو چاہیں، اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑان پر لا کر ماردوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جوا کیلے اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔

(بخاری: ۳۲۳۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے