دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا شرعی حکم اور احادیث

سوال:

کیا دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا بدعت ہے یا جائز؟

جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے متعلق جو احادیث موجود ہیں، وہ مجموعی طور پر حسن کے درجے تک پہنچتی ہیں۔
بعض صحابہ کرام، جیسے سیدنا ابن زبیر اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی یہ عمل منقول ہے۔

دلائل

1. ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن کے درجے تک پہنچنا:

بعض روایات جن میں دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا ذکر ہے، الگ الگ ضعیف ہو سکتی ہیں، لیکن جب ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ حدیث حسن کے درجے تک پہنچتی ہیں۔

2. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:

رسول اللہ ﷺ جب دعا کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد: 1492)

3. صحابہ کرام کا عمل:

سیدنا ابن زبیر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے یہ عمل نقل ہوا ہے کہ وہ دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرتے تھے۔

4. ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بعض ضعیف احادیث کی وجہ سے اس عمل کو حجت کے قابل نہیں کہا، لیکن علماء کا ایک بڑا طبقہ اسے قابل قبول اور جائز سمجھتا ہے۔

موقف:

دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا جائز ہے اور اسے بدعت کہنا تشدد ہے۔
اس عمل کو حسن کے درجے پر پہنچنے والی احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے تقویت ملتی ہے۔

خلاصہ:

  • دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ احتیاطاً مستحب سمجھا جاتا ہے۔
  • اسے بدعت کہنا مناسب نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1