دعا میں مذاق یا مزاح کرنے کا شرعی حکم

سوال:

اگر کوئی شخص دعا میں مزاحاً یا مذاقاً الفاظ استعمال کرے، جیسے ایک واقعے میں لڑکے نے اپنی شادی کی دعا مانگنے کے بجائے اپنی ماں کے لیے بہو مانگی اور نتیجہ میں اس کے بھائی کی شادی ہو گئی، یا کسی نے دوسری شادی کی دعا میں کہا "یا اللہ مجھے نئی ساس عطا فرما”، تو کیا یہ دعا کا مذاق شمار ہوگا؟ اس طرح مزاحاً کہنا کیسا ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

دعا میں مذاق یا مزاح کا معاملہ سنجیدگی کا متقاضی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دعا ایک عبادت ہے اور اس میں ادب اور اخلاص کا پایا جانا ضروری ہے۔ درج ذیل نکات میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے:

دعا میں استہزاء کی سخت ممانعت:

◈ اگر کسی شخص کا ارادہ دعا یا عبادت کا مذاق اڑانے کا ہو، تو یہ ایک سنگین جرم ہے اور شرعی طور پر ناقابل قبول ہے۔
◈ قرآن کریم میں اللہ، اس کی آیات اور رسول کے ساتھ مذاق کرنے والوں کے بارے میں سخت تنبیہ دی گئی ہے:
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
(سورہ التوبہ: 65-66)
ترجمہ: ’’کہہ دو، کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ بہانے مت بناؤ، تم اپنے ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو۔‘‘

معاملے کی تفتیش ضروری ہے:

◈ اگر دعا میں مذاق کرنے والا حقیقت میں عبادت کا استہزاء کر رہا ہو، تو اس کے خلاف سخت تنبیہ ہونی چاہیے۔
◈ لیکن اگر یہ لاعلمی یا سہو کی بنیاد پر ہو، تو اس کے لیے نرمی اختیار کی جا سکتی ہے اور اسے صحیح رہنمائی دی جائے۔

فرضی سوالات کی ممانعت:

◈ اگر یہ ایک فرضی سوال ہے اور اس کا کوئی حقیقی مقصد نہیں، تو ایسے سوالات کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ شریعت میں فضول اور بے مقصد سوالات سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔

مزاح اور دعا کا فرق:

◈ اگر دعا مزاحاً کی گئی ہو لیکن اس میں کسی عبادت یا اللہ کی آیات کا مذاق شامل نہ ہو، تو اسے صرف غیر سنجیدگی یا لاعلمی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن پھر بھی یہ عمل مناسب نہیں۔ دعا کا معاملہ سنجیدگی اور ادب کا تقاضا کرتا ہے۔

نتیجہ:

◈ اگر دعا میں مزاح یا مذاق سے اللہ اور عبادت کا استہزاء مراد ہو، تو یہ ناقابل قبول ہے اور سخت گناہ ہے۔
◈ اگر لاعلمی یا سہو کی بنیاد پر ہوا ہو، تو اس کے لیے سمجھانا اور اصلاح کرنا ضروری ہے۔
◈ فرضی سوالات اور غیر سنجیدہ باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ یہ دین کے ادب کے منافی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1