درمیانی تشہد و جلسہ استراحت
اکثر علماء کے نزدیک درمیانی تشہد اور درمیانی تشہد کا قعدہ دونوں سنت ہیں۔
[المجموع: 350/3]
لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ دونوں واجب ہیں اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قعد تم فى كل ركعتين فقولوا التحيات….
[صحيح: صحيح نسائي: 1114 ، كتاب التطبيق: باب كيف التشهد الأول ، نسائي: 1164 ، أحمد: 437/1 ، ابن خزيمة: 720 ، ابن حبان: 1951 ، شرح معاني الآثار: 263/1]
”جب تم ہر دو رکعتوں میں بیٹھو تو (یہ الفاظ ) کہو التحيات…….. الخ “
➋ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا جلست فى وسط الصلاة فاطمئن وافترش فخذك اليسرى ثم تشهد
[حسن: صحيح أبو داود: 766 ، كتاب الصلاة: باب صلاة من لا يقيم صلبه فى الركوع والسجود ، تمام المنة: ص/ 170 ، أبو داود: 860]
”جب تم نماز کے درمیان میں بیٹھ تو اطمینان سے بیٹھواور اپنی بائیں ران کو بچھالو پھر تشہد پڑھو۔“
(البانیؒ ) اس حدیث میں پہلے تشہد کے وجوب کی دلیل ہے اور (پہلے ) قعدے کا وجوب اس کے لیے لازم ہے (یعنی تشہد تب ہی ہو گا جب قعدہ ہو گا تو جب ایک واجب ہے تو دوسرا بھی واجب ہوا ۔ )
[تمام المنة: ص/ 170]
کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب ”جو چیز واجب کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے۔“
[المستصفى للغزالي: 71/1-72 ، تيسير التحرير: 365/1]
(شوکانیؒ) درمیانے تشہد کا حکم وہی ہے جو آخری تشہد کا ہے۔
[نيل الأوطار: 103/1]
ابن حزمؒ درمیانہ تشہد اور درمیانہ قعدہ دونوں واجب ہیں ۔
[المحلى بالآثار: 299/2-301]
(احمدؒ ، لیثؒ ، اسحاقؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ ، شافعیؒ) یہ دونوں واجب نہیں ہیں ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 850/2 ، المغني: 217/2 ، نيل الأوطار: 103/1]
جن علماء کے نزدیک درمیانہ تشہد اور درمیانہ قعدہ واجب نہیں ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان رسول الله قام من اثنتين من الظهر لم يجلس بينهما
[بخاري: 1225 – 1224 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى السهو إذا قام من ركعتي الفريضة ، مسلم: 570 ، موطا: 96/1 ، دارمي: 352/1 ، أبو داود: 1034 ، ترمذي: 389 ، نسائي: 19/3 ، ابن ماجة: 1206]
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعتوں کے متصل بعد کھڑے ہو گئے (یعنی درمیانہ تشہد نہ پڑھا) اور ان کے درمیان نہ بیٹھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی تو دو سجدے کرنے کے بعد سلام پھیر دیا ۔
امام ابن حزمؒ رقمطراز ہیں کہ یہ استدلال کچھ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ جس سنت سے تشہد کا وجوب ثابت ہوتا ہے اسی سنت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسے بھول جانے سے (صرف دو سجدے کر لینے پر ہی ) نماز ہو جاتی ہے۔
[المحلى بالآثار: 301/2]
(راجح) درمیانہ تشہد اور درمیانہ قعدہ آخری تشہد و قعدہ کی طرح ہی واجب ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ درمیانہ تشہد و قعدہ اگر (بھول کر ) رہ جائے تو سجدہ سہو اس سے کفایت کر جاتا ہے جبکہ آخری تشہد میں ایسا نہیں ہوتا ۔
[المغني: 217/2 ، نيل الأوطار: 103/1]
جلسہ استراحت پہلی رکعت کے بعد دوسری رکعت کے لیے اور تیسری رکعت کے بعد چوتھی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے (دوسرے سجدے کے بعد ) کچھ دیر اطمینان سے بیٹھنے کو کہتے ہیں اور یہ مسنون ہے جیسا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا فرماتے دیکھا:
فإذا كان فى وتـر مـن صــلاتــه لـم ينهض حتى يستوى قاعدا
[بخارى: 823 ، كتاب الأذان: باب من استوى قاعدا فى وتر من صلاته ثم نهض ، أبو داود: 823 ، ترمذي: 276 ، نسائي: 234/2 ، بيهقي: 123/2 ، ابن خزيمة: 342/1 ، ابن حبان: 302/3 ، شرح السنة: 267/2 ، أحمد: 53/5]
”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی طاق رکعت پڑھتے تو کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے ۔“
(شافعیؒ) جلسہ استراحت مشروع و مسنون ہے۔
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) یہ مسنون نہیں ہے ۔
[شرح المهذب: 419/3 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 123/1 ، روضة الطالبين: 365/1 ، المبسوط: 23/1 ، كشاف القناع: 355/1]
(ابن بازؒ) جلسہ استراحت واجب نہیں ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 247/1]
جلسہ استراحت کو غیر مسنون کہنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم ينهض فى الصلاة على صدور قدميه
[ضعيف: ضعيف ترمذى: 47 ، كتاب الصلاة: باب كيف النهوض من السجود ، إرواء الغليل: 362 ، ترمذى: 288]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے دونوں قدموں کے پنجوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔
امام ترمذيؒ فرماتے ہيں كہ (اس حديث كي سند ميں) خالد بن الياس راوي كہ جسے خالد بن اياس بهي كہا جاتا ہے اہلحديث كے نزديك ضعيف هے ۔
عبدالرحمٰن مباركپوريؒ كہتے ہيں كہ خالد بن اياس متروك هے۔
[تحفة الأحوذي: 181/2]
حافظ ابن حجرؒ بهي اسے متروك الحديث قرار ديتے هيں۔
[تقريب التهذيب: 211/1]
امام ذهبيؒ رقمطراز هيں كه امام بخاريؒ اس راوي كو كچه حيثيت نهيں ديتے اور امام احمدؒ اور امام نسائيؒ اسے متروك كهتے هيں۔
[ميزان الاعتدال: 407/2]
➋ ایک روایت میں ہے کہ :
انه صلى الله عليه وسلم كان يقوم كأنه السهم
[مجمع الزوائد: 138/2 ، اس كي سند ميں خطيب بن جحدر راوي كذاب هے]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کی مانند کھڑے ہو جاتے تھے ۔“
➌ صاحب ہدایہ نے جلسہ استراحت کو بڑھاپے پر محمول کیا ہے (یعنی بڑھاپے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان سے بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے ) ۔
[كما فى تحفة الأحوزى: 178/2]
اس کے جواب میں حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ ”یہ تاویل کسی دلیل کی محتاج ہے۔“
[الدراية: 147/1]
بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے جدا ہوتے وقت فرمایا تھا:
صلوا كما رأيتموني أصلى
”تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پرھتے دیکھا ہے“
اور وہی صحابی جلسہ استراحت کا اثبات بیان کر رہے ہیں (خود راوی حدیث نے جب اسے بڑھاپے پر محمول نہیں کیا تو کسی اور کا ایسا کرنا نا قابل اعتبار ہے ) لٰہذا حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مسئلہ میں حجت ہے۔
(راجح) جلسه استراحت سنت و مستحب ہے اور جن احادیث میں اس کا ذکر نہیں ہے وہ اس کے عدم جواز کی نہیں بلکہ عدم وجوب کی دلیل ہیں۔
[تفصيل كے ليے ديكهيے: فتح الباري: 564/2 ، نيل الأوطار: 101/2 ، تحفة الأحوذى: 182/2 ، سبل السلام: 430/1]