مغربی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کے مقاصد
مغربی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کے مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جو ادارے بیرونی ممالک سے مالی مدد لیتے ہیں، وہ انہی کے ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں۔ مغربی دنیا کا اصول ہے کہ "There is no free lunch” یعنی مفت میں کوئی مدد نہیں ملتی، ہر چیز کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔
این جی اوز اور مخصوص مہمات
مختلف این جی اوز مخصوص ایجنڈوں پر کام کر رہی ہیں:
- کچھ سزائے موت ختم کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔
- بعض آزادی اظہار کے نام پر پروپیگنڈہ کرتی ہیں۔
- کچھ اقلیتوں کے حقوق کے نام پر کام کر رہی ہیں۔
- کئی تنظیمیں توہینِ رسالت قانون کے خلاف سرگرم ہیں۔
- بعض خواجہ سراؤں اور خواتین کے حقوق کی آڑ میں کام کر رہی ہیں۔
یہ تمام کوششیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں، جن کا مقصد مغربی ثقافت کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے۔
پاکستانی خواتین کے حقیقی مسائل
ملک کی عام خواتین کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
- روزانہ رکشوں اور بسوں میں دھکے کھاتی ہیں۔
- محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا۔
- جائیداد میں حق سے محروم رہتی ہیں۔
- زچگی کے دوران مناسب طبی سہولیات نہیں ملتیں۔
لیکن ان مسائل کے بجائے، خواتین مارچ میں جن باتوں کو نمایاں کیا جاتا ہے، وہ یوں لگتا ہے جیسے پاکستانی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ جنسی آزادی، کھانے پکانے سے انکار، لباس کی آزادی، اور دیگر غیر ضروری نکات ہیں۔
خواتین مارچ کا متنازعہ بیانیہ
کیا واقعی خواتین مارچ میں پیش کیا جانے والا بیانیہ درست اور جینوئن ہے؟ کیا ہمارے گھروں کی خواتین بھی ان مسائل کا شکار ہیں؟
- ایک طرف جنسی ہراسگی جیسے سنگین مسئلے پر بات کی جاتی ہے، جو واقعی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
- لیکن دوسری طرف "میری مرضی” جیسے نعرے دیے جاتے ہیں، جو ایک اور انتہا کو ظاہر کرتے ہیں۔
کیا یہ نظریاتی تبدیلی صحت مند ہے؟
خواتین کے حقیقی مسائل پر بات ہونی چاہیے
ضرورت اس بات کی ہے کہ:
- خواتین کی عزتِ نفس، کردار اور صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔
- اصل مسائل پر توجہ دی جائے جیسے:
- بیٹیوں کی تعلیم کے بعد انہیں گھروں میں بٹھا دینا۔
- دیر سے شادیاں ہونا۔
- گھریلو اور دفتری ماحول میں ذہنی و جسمانی تشدد۔
- دفاتر میں برابری کی تنخواہ اور عزت دار ماحول۔
- گھریلو خواتین کے لیے آن لائن یا چھوٹے کاروبار کے مواقع پیدا کرنا۔
خواتین کے حقوق کو متنازعہ نہ بنائیں
اصل مسائل پر بات کرنے کے بجائے، اگر پلے کارڈز پر بازاری اور بے مقصد نعرے لکھے جائیں گے، تو اس سے تنقید کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تنقید خود خواتین ہی کر رہی ہوتی ہیں۔
مذہب اور خواتین کے حقوق
یہ مت سمجھیں کہ "میرا جسم، میری مرضی” جیسے نعرے ہی خواتین کے حقوق کی نمائندگی کرتے ہیں۔
- قرآن میں خواتین کے حقوق واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔
- نبی کریم ﷺ کا لہجہ خواتین کے لیے محبت سے لبریز تھا۔
- مگر ہمارا معاشرہ عائلی معاملات میں ہندووانہ روایات کو دین سمجھ کر اپناتا ہے۔
چند مخصوص طبقے کی خواتین کے غلط بیانیے نے اصل خواتین کے مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو وہ حقوق دیے جائیں جو انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیے ہیں۔