خمس کے احکام: مالِ غنیمت اور دفینہ میں خمس کی فرضیت
غنیمت ایسے مال کو کہتے ہیں جو جنگ میں حاصل ہو۔
[المنجد: ص/618]
اس میں منقولہ (مثلاً گاڑیاں ، مویشی ، آلات جنگ وغیرہ ) اور غیر منقولہ (مثلا زمینیں ، عمارتیں اور گھر وغیرہ ) سب بغیر کسی فرق کے شامل ہیں۔ اس کا مفصل بیان آئندہ كتاب الجهاد والسير میں دیکھیے ۔
[الروضة الندية: 253/1]
◈ فئی: ایسے مال کو کہتے ہیں جو بغیر مشقت (یعنی جنگ) کے حاصل ہو جائے ۔
[القاموس المحيط: ص/ 1031]
مال فئ کا مصرف اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ [الحشر: 7]
”بستیوں والوں کا جو مال اللہ تعالیٰ نے تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگایا وہ اللہ کا ہے ، اور رسول کا ، اور قرابت والوں کا ، اور یتیموں مسکینوں کا ، اور مسافروں کا ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
العجماء جبار والبئر جبار والمعدن جبار وفي الركاز الخمس
”جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں ، اور کنوئیں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے گا۔“
[بخاري: 1499 ، كتاب الزكاة: باب فى الزكاز الخمس ، مسلم: 1710 ، أبو داود: 3085 ، ترمذي: 1391 ، نسائي: 45/5 ، ابن ماجة: 2509 ، موطا: 249/1 ، ابن أبى شيبة: 224/3 ، أحمد: 228/2]
رکاز کے مفہوم کے متعلق علماء کے دو اقوال ہیں:
➊ (جمہور، مالکؒ ، شافعیؒ) اس سے مراد جاہلیت کے زمانے کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو بغیر کسی کثیر محنت و مشقت کے حاصل ہوا ہو۔
➋ (ابو حنیفہؒ ، ثوریؒ) رکاز معد نیات کا ہی دوسرا نام ہے۔
[نيل الأوطار: 106/3 ، قوانين الأحكام الشرعية: ص/ 119 – 120 ، مغني المحتاج: 394/1 ، بدائع الصنائع: 65/2]
جمہور نے احناف کا رد گذشتہ حدیث سے کیا ہے کہ جس میں معدنیات اور رکاز کا الگ الگ ذکر (ایک ہی حدیث میں ) ہوا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان دونوں میں یقینا فرق موجود ہے۔
(صاحب قاموس) انہوں نے رکاز کے دونوں معنے کیے ہیں یعنی معدنیات اور جاہلیت کا دفینہ۔
[القاموس المحيط: ص/ 461]
(ابن اثیرؒ) رکازان دونوں معنوں پر بولا جاتا ہے لیکن حدیث جاہلیت کے دینے کے متعلق وارد ہے۔
[النهاية: 258/2]
(البانیؒ) لغت میں دونوں معنے مراد ہیں لیکن شرعا صرف جاہلیت کا دفینہ مراد ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی (گذشتہ ) حدیث میں ہے۔
[تمام المنة: ص/ 376]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ حدیث سے ان دونوں کا فرق صاف ظاہر ہے۔ ثابت ہوا کہ رکاز کے مال میں زکوٰۃ نہیں بلکہ ”خمس“ یعنی پانچواں حصہ ہے۔ اس کی حیثیت مال غنیمت جیسی ہے۔ اس میں خمس واجب ہے جو کہ بیت المال میں جمع کیا جائیگا اور باقی تمام کا مالک وہ شخص ہو گا جسے یہ خزانہ ملا ہے۔
علاوہ ازیں معدنیات میں زکوٰۃ واجب ہے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قبل“ جگہ میں واقع کانوں سے زکوٰۃ وصول کی۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 668 ، كتاب الخراج والإمارة والفيئ: باب فى إقطاع الأرضين ، إرواء الغليل: 830 ، أبو داود: 3061 ، موطا: 248/1 ، بيهقي: 152/4 ، حاكم: 517/3]
اگرچہ اس روایت میں ضعف ہے لیکن دیگر احادیث کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ سونے اور چاندی کی کانوں میں زکوٰۃ ہے جبکہ احناف ان میں بھی خمس کے ہی قائل ہیں کیونکہ وہ رکاز سے معدنیات ہی مراد لیتے ہیں۔
[نيل الأوطار: 107/3]
ان کے علاوہ کسی اور چیز میں خمس واجب نہیں ہے اور اس کا مصرف اللہ تعالی کے اس ارشاد میں مذکور ہے۔ واعلمو أنما غنمتم من شي
کیونکہ شریعت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ ان اشیاء کے علاوہ کسی اور میں بھی خمس واجب ہے
نیز براءۃ اصلیہ کا قاعدہ بھی اس کا مؤید ہے۔
(ابو حنیفہؒ) ہر جوہر میں خمس ہے مثلا لوہا ، تانبا اور پتیل وغیرہ ۔
[الروضة الندية: 526/1]
یاد رہے کہ یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ والله اعلم
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَيْتُمْ مِّنْ عَى فَأَنَّ لِلَّهِ حُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِى القُرْبَى وَالْيَعْمَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ [الأنفال: 41]
”جان لو کہ تم جس قسم کی جو غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ تعالی کا ہے ، اور رسول کا ، اور قرابت داروں کا ، اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے۔ “
(جمہور ، مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) اس خمس کا مصرف وہی ہے جو مال فئی کے خمس کا مصرف ہے۔
(شافعیؒ) اس کا مصرف وہ ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔
(احمدؒ) ان سے مذکورہ دونوں اقوال منقول ہیں۔
[نيل الأوطار: 106/3 ، المبسوط: 211/2 ، بدائع الصنائع: 65/2 ، الكافي لابن عبدالبر: ص/96 ، الأم: 62/2 ، الحاوى: 335/3 ، المغنى: 236/4]
(راجح) فی الحقیقت کتاب و سنت میں رکاز کے مصرف کی کوئی بھی واضح دلیل موجود نہیں لٰہذا بہتر یہی ہے کہ اس کا مصرف امام السلمین کی رائے پر موقوف سمجھا جائے۔
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تمام المنة: ص / 378]
رکاز سے خمس نکالنے کے لیے اس کا سونے یا چاندی کے نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں
(جمہور، احناف ، امیر صنعانیؒ، البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تمام المنة: ص/ 377]
(شوکانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[نيل الأوطار: 106/3]
(شافعیؒ ، مالکؒ ، احمدؒ ، اسحاقؒ) نصاب کا اعتبار کیا جائے گا۔
[نيل الأوطار: 106/3 ، المبسوط: 211/2 ، الهداية: 110/1 ، الكافي لابن عبدالبر: ص/ 95 ، الأم: 59/2 ، الحاوى: 337/3 ، المغني: 235/4]
اہل ذمہ سے جزیہ کی وصولی
اہل ذمہ کے ہر فرد سے ماہانہ یا سالانہ جیسے حاکم وقت مناسب سمجھے جزیہ (ٹیکس ) وصول کیا جائیگا اور اس کی مقدار کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم أمره أن ياخذ من كل حالم دينارا
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ہر بالغ سے ایک دینار وصول کریں ۔“
[صحيح لغيره: إرواء الغليل: 795 ، أبو داود: 3038 ، كتاب الخراج والإمارة والفيئ: باب فى أخذ الجزية ، أحمد: 240/5 ، ترمذي: 623 ، نسائي: 26/5 ، ابن ماجة: 1803 ، حاكم: 398/1]