تبلیغِ دین ، دعوتِ حق اور اس کی ترویج عظیم فریضہ ہے جسے اہل علم اور اہل فکر و دانش اپنی بساط کے مطابق ادا کر رہے ہیں۔ چونکہ تحریر کی بہ نسبت تقریر کا براہ راست عوام کے ساتھ زیادہ تعلق ہوتا ہے جس میں اندازِ بیاں کے ساتھ مقرر و داعی کا اخلاق و کردار بھی گہرے نقوش چھوڑتا ہے لہٰذا اپنے اُن بھائیوں کے لئے جو اس میدان کے شہسوار ہیں (اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلاَحَ) کے تحت چند کلمات بطورِ نصیحت لکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔
ویسے تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان : (بلّغو اعنی ولو آیۃ) مجھ سے (سن کر آگے) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ [صحیح بخاری: ۳۴۶۱] بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر طرح سے دعوت ِ دین عام کی جائے۔
۱:خطیب و داعی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو دعوت دینے کے ساتھ خود بھی قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو اور تمام غیر شرعی امور سے کلی طور پر اجتناب کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے معراج والی رات کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے جبریل ؑ سے پوچھا : یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کی اُمت کے خطیب (خطباء) ہیں، یہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور (نیکی پر عمل کرنے سے ) اپنے آپ کو بھُلا دیتے تھے حالانکہ یہ کتاب بھی پڑھتے تھے۔ کیا یہ عقل نہیں رکھتے تھے؟[صحیح ابن حبان، الاحسان:۵۳ و سندہ حسن لذاتہ ، المختارۃ للضیاء المقدسی ۷؍۲۰۷ح ۲۶۴۶]
ایسے خطیب و داعی جو لوگوں کو برائی سے روکتے ہیں اور خود برائی کا ارتکاب کرتے ہیں، کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا پھر اسے (جہنم کی) آگ میں ڈالا جائے گا تو آگ میں اس کی انتڑیاں باہر آ جائیں گی پھر وہ اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی پر گھومتا ہے۔ جہنمی اس کے پاس اکٹھے ہو کر پوچھیں گے:
اے فلاں!تجھے کیا ہوا ہے؟ وہ کہے گا: میں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا، میں تمھیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود برائی کرتا تھا۔ [صحیح بخاری: ۳۲۶۷، صحیح مسلم: ۲۹۸۹]
۲:توحید و سنت کی دعوت اور معاشرے کی اصلاح میں حکمت کا پہلو چھوٹنے نہ پائے ایسے ہی شرک و بدعت اور سیئات و منکرات کا احسن طریقے سے مدلل رد کرنا چاہیئے۔
۳: خطبے میں قرآن مجید کی آیات سے استدلال فہم سلف صالحین کی روشنی میں کیا جائے اور صرف صحیح احادیث، صحیح آثار اور صحیح تاریخی واقعات با حوالہ پیش کرنے چاہیئں۔ ضعیف و موضوع روایات اور بے سند و بے اصل واقعات بیان کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے۔ موضوع حدیث کو رد اور انکار کے بغیر بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ [دیکھئے مقدمہ ابن الصلاح ص ۱۳۳۱]
منکر، شاذ اور بے اصل روایات کا بھی یہی حکم ہے۔ ضعیف و غیر ثابت روایات کے بارے میں راجح یہی ہے کہ انہیں بصیغہ جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے قواعد التحدیث للقاسمی ص ۱۱۳، ماہنامہ الحدیث: ۴ص۷
بعض لوگ موضوع و من گھڑت روایت یا قصہ متاثر کن انداز میں اور بڑے ترنم سے سامعین کو سنا کر محظوظ کرتے ہیں اور اخر میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ موضوع ہے یہ طریقہ انتہائی غلط ہے۔ اگر ضعیف و موضوع روایت بتانا مقصود ہو تو سادہ انداز میں اس کی وضاحت کی جائے اور اس کا رد کیا جائے۔
۴: بعض حضرات تقریر کے دوران میں خوب ہاتھوں کو لہراتے ہیں اور کبھی دونوں ہاتھوں کو اکٹھا بہت زیادہ بلند کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔
سیدنا عمارہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ صرف سبابہ انگلی سے اشارہ فرماتے تھے ۔[صحیح مسلم: ۸۷۴، سنن ابی داود: ۱۱۰۴]
۵: ایسے اندازِ بیاں اور لمبی تقریروں سے اجتناب کرنا چاہیئے جو کہ فائدے کے بجائے تکلیف دہ ثابت ہوں۔ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی اکتاہٹ کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔[دیکھئے صحیح بخاری: ۶۸، صحیح مسلم: ۲۸۲۱]
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے میرے والد عمر ؓ کو ایک قصہ گو (خطیب کے بارے میں پیغام بھیجا جو حجرے کے دروازے کے قریب بیٹھتا (اور وعظ کرتا) تھا کہ ‘‘اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے حتیٰ کہ میں (گھر آنے والوں کی ) باتیں بھی نہیں سن سکتی’’ آپ ؓ نے پیغام بھیج کر اس قصہ گو کو منع کیا۔ پھر (ایک دن) اُس نے دوبارہ یہی حرکت کی تو میرے والد عمر ؓ لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے اور اسے مار مار کر اس کے سر پر لاٹھی توڑ دی۔[تاریخ المدینہ المنورۃ العمر بن شبہ ۱؍۱۵۱و سندہ صحیح]
۶: فضول اشعار اور پر تکلف ترنم سے احتراز کرنا چاہیئے البتہ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔
۷: وعظ با مقصد و مفید ہونا چاہیئے، حتی الوسع رطب و یابس سے پرہیز کیا جائے اور ہر بات با حوالہ پیش کی جائے۔ ایک دفعہ بشیر بن کعب العدوی رحمہ اللہ حدیثیں بیان کر رہے تھے کہ ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؍رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ تو ابن عباس ؓ نے ان (مرسل) بے سند روایات کی طرف ذرا برابر توجہ نہ فرمائی۔[مقدمہ صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام:۲۱]
۸: تکبر سے ہر طرح سے بچنا چاہیئے، یہ علم و عمل کا دشمن ہے۔ عجز و انکسار اپنانا چاہیئے یہ علم و عمل کی ایک راہ ہے اور یہی اہل علم کا شیوہ ہے۔
۹: اہل سنت (اہلِ حدیث) کے منہج کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور علمائے حق سے رابطہ رکھتے ہوئے کتاب و سنت کی دعوت میں مشغول رہیں۔ حزبیت و پارٹی بازی کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتشار، حسن، بغض اور کینہ کو مٹانے کے لئے سر توڑ کوششیں کریں، تمام صحیح العقیدہ بھائیوں کو ایک جماعت بنائیں۔ خارجیوں اور تکفیریوں کی راہ سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، کبھی اپنے صحیح العقیدہ بھائیوں کی توہین نہ کریں۔
۱۰: جب بندہ اللہ کے لئے مخلص ہو جاتا ہے تو اللہ اپنے بندے کے لئے آسانیاں پیدا فرماتا ہے اور راستوں کو ہموار کر دیتا ہے لہٰذا ہمیشہ دنیاوی مفاد کے بجائے اُخروی فائدے کو ترجیح دی جائے اور ہر طرح کی حرص اور لالچ کو اسلام کی سربلندی کے لئے خاص کر دیا جائے۔