خدا کی پوشیدہ ذات ایمان امتحان اور کائنات کی گواہی

خدا کے وجود کے سائنسی اور فلسفیانہ دلائل

خدا کے وجود کے سائنسی اور فلسفیانہ دلائل کے باوجود بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال رہتا ہے کہ اگر خدا واقعی موجود ہے تو وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟ کیوں وہ اپنی موجودگی کو واضح انداز میں ظاہر نہیں کرتا، مثلاً آسمان پر بڑے حروف میں لکھ دے کہ "میں خدا ہوں”؟ اس مضمون میں اس سوال کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔

خدا کو دیکھنے کی انسانی صلاحیت کی حدود

رائے اے ورغس (Roy A. Varghese) اپنی کتاب ’’عجوبہ عالم: جدید سائنس سے خدا کے ذہن تک ایک سفر کی روداد‘‘ میں لکھتے ہیں:

"جب آپ ایک بار سمجھ لیتے ہیں کہ خدا کا تصور کیا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی لامحدود ذات کو جسمانی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کوئی شکل، حجم اور رنگ ہو، اور روشنی اس سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک پہنچے۔ لیکن ایسی خصوصیات کسی لامحدود ذات میں نہیں ہو سکتیں۔ اگر فرض کریں کہ آسمان پر یہ تحریر نمودار ہو بھی جائے کہ ‘میں خدا ہوں’، تو بھی یہ ثابت کرنا ممکن نہ ہوگا کہ یہ پیغام خدا نے ہی تحریر کیا ہے۔”
(The Wonder of the World: A Journey from Modern Science to the Mind of God)

انسان خدا کو دیکھنے کی تاب کیوں نہیں رکھتا؟

انسان خدا کی لامحدود ذات کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾
(سورۃ الأنعام: ۱۰۳)

ترجمہ: "آنکھیں اسے نہیں پا سکتیں، مگر وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔”

اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اس دنیا میں خدا کی ذات کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حتیٰ کہ انسان سورج کو بھی چند فٹ کے فاصلے سے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا، چہ جائیکہ سورج کے خالق کو دیکھ سکے۔

خدا کی موجودگی کا مخفی رہنا: امتحان کی حکمت

خدا نے اس دنیا کو ایک امتحان کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ اگر خدا اپنی ذات کو ہر ایک پر ظاہر کر دیتا تو آزمائش کا تصور ختم ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں کائنات اور انسان کے اندر پھیلا دی ہیں اور انبیاء کے ذریعے اپنا پیغام بھیجا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"سات آسمان اللہ کی کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے ڈھال میں رکھے ہوئے سات درہم۔”
(تفسیر الطبری، ۳؍۷۷)

خدا کا انسان کو مکمل آزادی دینا اور اپنی موجودگی کو پس منظر میں رکھنا دراصل انسان کے فیصلے کی آزادی کو برقرار رکھنا ہے۔

خدا کے وجود کی نشانیاں: کائنات اور حسن کی گواہی

ڈین اوورمین (Dean Overman) اپنی کتاب ’’اے کیس فار دی ایگزسٹنس آف گاڈ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حسن درحقیقت خدا کی سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فزکس کے ماہرین پال ڈیہاک اور رچرڈ فائن مین کے مطابق ریاضیاتی سچائی کو حسن کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے کیونکہ حسن حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔

کائنات کا حسن:

یہ کائنات ایک شاندار فن پارے کی مانند ہے جسے انتہائی محبت اور مہارت سے تراشا گیا ہے۔ اگر یہ کائنات محض اتفاق کا نتیجہ ہوتی تو اس میں ایسا حسن اور ترتیب کیوں ہوتی؟ یہ حسن ایک لامحدود حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے، جیسا کہ مشہور فلسفی پلاٹو نے کہا تھا کہ حسن ایک اعلیٰ حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

ملحدین کا نقطہ نظر اور اس کے مسائل

ملحدین کا دعویٰ ہے کہ انسان محض بقا کی جنگ لڑنے والی مشین ہے اور زندگی کا مقصد صرف اپنی نسل کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے:

  • موسیقی اور فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے کی ہماری صلاحیت کا بقا کی جدوجہد میں کیا کردار ہے؟
  • کیا غروبِ آفتاب سے لطف اندوز ہونے والے انسانوں کو درندوں سے بچنے میں کوئی فائدہ ہوا؟
  • کائنات کی پیچیدگی، ریاضی اور طبیعیات کو سمجھنے کی صلاحیت بقا کی جنگ میں کیوں ضروری تھی؟

سی ایس لیوس کے مطابق، ایسے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ملحدین کو "برضا و رغبت نابینا” بننا پڑتا ہے۔

خلاصہ

خدا اپنی ذات کو اس دنیا میں مخفی رکھتا ہے تاکہ انسان کے لیے ایمان لانے اور انکار کرنے کی آزادی باقی رہے۔ اس نے اپنی نشانیوں کو کائنات، انسانی فطرت اور انبیاء کی تعلیمات کے ذریعے ظاہر کیا ہے۔ کائنات کا حسن، ترتیب اور گہرائی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ سب کسی لامحدود، حکیم اور کامل خالق کی تخلیق ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1