ابتدائی تعارف
خدا اور انسان کے تعلق کو ہمیشہ مختلف انداز میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن عموماً یہ تعلق موجد اور ایجاد یا خالق اور تخلیق کے عام تصور تک محدود رہتا ہے۔ انسان کی فطری جبلّت اسے خالق اور کائنات کے تعلق کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ انسان مادّی کائنات میں مقید ہونے کی وجہ سے خدا کو بھی مادّی پیمانوں میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ نقطہ نظر محدود اور ناقص ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انسان خدا کی حقیقت کے بارے میں تجسس رکھتا ہے۔
بنیادی نکات
- عدم کیا ہے؟
- وجود کی حقیقت کیا ہے؟
- کیا وجود بذات خود ایک تخلیق ہے؟
- کیا وجود کسی محدود مظہر کا حصہ ہے؟
عدم اور وجود کی حقیقت
عدم کی تعریف
عدم وہ کیفیت ہے جس میں نہ کوئی شے موجود ہو، نہ مادّہ، اور نہ شعور۔ یہ عدم کسی "برتر شے” یا "بالائے وجود” کا مظہر بھی ہو سکتا ہے جو ہماری عقل اور شعور سے بالاتر ہے۔
وجود کیا ہے؟
وجود کا احساس انسانی شعور کی بنیاد ہے۔ یہ ہمارے اردگرد کے ماحول کے تاثرات کو ذہن میں جذب کرنے کا نتیجہ ہے۔ شعور اور وجود لازم و ملزوم ہیں؛ شعور کے بغیر وجود کا ادراک ممکن نہیں۔ انسان کے لیے وجود ایک محدود مظہر ہے، جس کے باہر معدومیت کا گمان ہے۔
خدا، عدم اور وجود کے باہمی تعلق پر مفروضہ
مفروضہ
"انسان وجود میں نہیں بلکہ کسی حصارِ وجود میں ایک ادراکِ وجود سے منسلک ہے۔”
یعنی انسان کا حقیقی جوہر اس کے "موجود ہونے کے احساس” میں مضمر ہے، جو ایک خاص ماحول میں تخلیق کیا گیا۔
خدا کے بارے میں تفہیم
خدا بالائے وجود میں مقیم ہے اور کائنات کا نظام اس کے ارادے کی تخلیق ہے۔ خدا کائنات اور مخلوقات کا حصہ نہیں ہو سکتا کیونکہ خالق اپنے تخلیق کردہ نظام کا جز نہیں بن سکتا۔ اس لیے خدا کے وجود کو مادی اور شعوری پیمانوں میں پرکھنا انسانی عقل کی حد سے باہر ہے۔
انسان کی ساخت اور شعور
انسان کی تخلیق کا جوہر
- انسان کو "ادراکِ وجود” کے ساتھ تخلیق کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے اردگرد کی موجودات کا شعور رکھتا ہے۔
- انسان کے شعور نے خالق کا ادراک پیدا کیا۔
- انسان کی تخلیق مادی اور شعوری دونوں بنیادوں پر ہوئی، لیکن خالق مادی نہیں بلکہ "بالائے وجود” کا مظہر ہے۔
شعور کا محدود دائرہ
- انسان کا شعور مادی حدود میں قید ہے۔
- اس کا تخیل بھی مادی وجود کی بنیاد پر قائم ہے۔
- اس لیے انسان آفرینش سے قبل کے حالات یا "ماورائے وجود” کو نہیں سمجھ سکتا۔
خالق کی ماورائیت
خالق اور مخلوق کے درمیان فرق
خدا نے کائنات کی تخلیق کے لیے "حصار وجود” کا ایک نظام بنایا۔
- انسان کائنات کے مادی پیرایے میں مقید ہے اور اسی کے ذریعے خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
- خالق کا مقام وجود کے پیرائے سے بالاتر ہے، جسے انسانی عقل نہیں پا سکتی۔
معراج اور جنّت کا ذکر
واقعۂ معراج اس بات کی دلیل فراہم کرتا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان ایک "ماورائے وجود” سرحد ہے جہاں انسانی فہم کی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
حدیث مبارکہ: "جنّت ایسی جگہ ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا۔”
وجود اور شعور کا فلسفہ
وجود اور خواب کی مثال
انسان کی موجودگی کا احساس ایک خواب جیسا ہے، جو موت یا نیند کے ساتھ معدوم ہو جاتا ہے۔
دنیا کی زندگی کو قرآن مجید نے "کھیل تماشہ” قرار دیا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ دنیا کی زندگی ایک "ادراکِ وجود” ہو، جو کسی برتر حقیقت کا عکس ہو۔
انسان کی فکری محدودیت
انسان کا علم اور عقل مادی دائرے میں قید ہیں، اس لیے وہ خدا کو صرف اپنے شعوری پیمانوں میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
خدا کو "کس نے پیدا کیا؟” کا سوال اسی شعوری محدودیت سے پیدا ہوتا ہے۔
خدا وجودیت اور مادی اصطلاحات سے ماورا ہے۔
نتیجہ
انسان کی بے بسی
انسان اپنے محدود شعور اور مادی فکر کے ذریعے خدا کی حقیقت کو مکمل طور پر نہیں جان سکتا۔
- خدا مادی اور غیر مادی دونوں پیرایوں میں لامحدود ہے، لیکن انسان کا علم مادی دائرے میں مقید ہے۔
کیا ہمارا مفروضہ کچھ وضاحت فراہم کرتا ہے؟
یہ مفروضہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ خدا کا وجود انسان کی مادی تفہیم سے بالاتر ہے اور انسان کو اپنی عقلی محدودیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔