سوال:
اگر ایک شخص وکیل ہے اور ڈیڑھ لاکھ آمدنی کے باوجود بیوی بچوں پر خرچ نہیں کرتا، یہاں تک کہ بیوی کے رشتے داروں کی طرف سے دی گئی امداد بھی خود رکھ لیتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں زکاة کے مال سے بیوی بچوں کی مدد کی جا سکتی ہے، جبکہ بیوی کے پاس تقریبا ایک تولہ سونا موجود ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
➊ محدود حد تک زکاة سے مدد کی اجازت:
محدود حد تک زکاة کے مال سے مدد کی جا سکتی ہے، لیکن یہ معاملہ بہت احتیاط کا متقاضی ہے۔
ایسے کیسز میں اکثر حیلے اور چالاکیوں کا خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ بعض اوقات لوگ زکاة کی مدد حاصل کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں۔
➋ ممکنہ حیلے سے بچنے کی ضرورت:
بعض اوقات خاوند جان بوجھ کر بیوی اور بچوں کا نان نفقہ ادا نہیں کرتا تاکہ زکاة یا دیگر امداد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔
بعض کیسز میں بیوی اور خاوند دونوں شریک ہو سکتے ہیں، جبکہ بعض اوقات بیوی واقعی مظلوم ہوتی ہے اور مدد کی مستحق ہوتی ہے۔
➌ وقتی طور پر مدد کا طریقہ:
اگر بیوی واقعاً مظلوم ہے اور فی الحال کوئی اور وسیلہ موجود نہیں ہے، تو وقتی طور پر زکاة کے مال سے مدد کی جا سکتی ہے۔
لیکن یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے لیے مجلس یا گھر کے بڑوں کی مدد سے بات چیت کی جائے۔
➍ بیوی کے پاس ایک تولہ سونا ہونے کا مسئلہ:
اگر بیوی کے پاس صرف ایک تولہ سونا ہے اور اس کے علاوہ کوئی آمدن یا اثاثہ نہیں، تو وہ زکاة کی مستحق ہو سکتی ہے، کیونکہ ایک تولہ سونا (جو نصاب سے کم ہے) زکاة لینے میں مانع نہیں ہوتا۔
لیکن بہتر ہے کہ یہ معاملہ خاندانی سطح پر حل کیا جائے تاکہ بیوی اور بچوں کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔
خلاصہ:
بیوی اور بچوں کی محدود حد تک زکاة سے مدد کی جا سکتی ہے، لیکن یہ یقینی بنایا جائے کہ یہ مستقل حیلے یا چالاکی کا حصہ نہ ہو۔
افہام و تفہیم سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ خاوند اپنی شرعی ذمہ داری ادا کرے۔
بیوی کے پاس اگر صرف ایک تولہ سونا ہے، تو وہ زکاة لینے کی مستحق ہو سکتی ہے۔