اجازت کے بغیر خاوند کا مال لینا
سوال: ایک عورت خرچے میں تنگی اور تقصیر کرنے والے اپنے خاوند کے مال سے اس کو بتائے بغیر کچھ لے لیتی ہے اور قسم اٹھا کر کہتی ہے کہ اس نے کچھ نہیں لیا؟
جواب: عورت کے لیے اپنے خاوند کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ لینا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر ایک دوسرے کا مال لینا حرام کیا ہے اور رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اس کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
”تمہارے خون، مال اور عزتیں تم پر اس مہینے میں اور اس شہر میں اس دن کی حرمت کی طرح حرام ہیں۔ کیا میں نے اپنی بات پہنچا دی؟“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 67 صحيح مسلم 1679/29]
لیکن جب اس کا خاوند بخیل ہو اور اس کو اس قدر خرچہ نہ دیتا ہو جو اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے (معروف معروف سے مراد ہر علاقے اور دور کا وہ معیار ہے جس سے لوگ مانوس ہوں، لیکن وہ اخلاق و قانون کے مطابق ہو اور شریعت سے متعارض نہ ہو۔) کے مطابق کافی ہو تو وہ اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے مال سے بقدر معروف خرچہ لے سکتی ہے۔
اس سے زیادہ نہیں، اور نہ اپنے اوپر اور اپنی اولاد پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے لے سکتی ہے۔ اس کی دلیل حضرت ہند بنت عتبہ کی حدیث ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے خاوند کا شکوہ کرتے ہوئے کہا: وہ ایک بخیل آدمی ہے اور وہ مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتا جو میرے لیے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس کے مال سے اتنا لے لو جو تمہارے اور تمھاری اولاد کے لیے بقدر معروف کافی ہو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5364]
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی کہ وہ اس کے مال سے بقدر ضرورت لے لے، خواہ اس کو علم ہو یا نہ ہو۔
اس عورت کے سوال میں، جو اپنے خاوند سے قسم اٹھا کر کہتی ہے کہ اس نے کوئی چیز نہیں لی، اس کی یہ قسم حرام ہے، مگر یہ کہ وہ اپنی قسم میں یہ نیت رکھے: اللہ کی قسم ! میں نے کچھ نہیں لیا۔ یعنی میں نے ایسا کچھ نہیں لیا جس کا لینا حرام ہو، یا یہ نیت رکھے کہ اللہ کی قسم میں نے تجھ پر واجب خرچے سے زیادہ کچھ نہیں لیا، یا اس جیسی کوئی بھی تاویل کر لے جو اس کے شرعی استحقاق کے مطابق ہو، کیونکہ اگر انسان مظلوم ہو تو ایسی حالت میں تاویل کرنا جائز ہوتا ہے، لیکن اگر انسان ظالم ہو، تب تاویل کرنا جائز نہیں ہوتا اور وہ عورت جس کا خاوند بخیلی کرتے ہوئے اس کا اور اس کی اولاد کا واجب خرچہ ادا نہیں کرتا، وہ بلاشبہ مظلوم ہے، لہٰذا اس کے لیے تاویل کرنا جائز ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 7]