خائن خود کشی کرنے والے کافر اور شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

خائن خود کشی کرنے والے کافر اور شہید کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی

واضح رہے کہ خائن سے مراد ایسا شخص ہے جو مال غنیمت سے تقسیم سے پہلے کوئی چیز چرالے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية للألباتي: 447/1 ، التعليق على الروضة لندية للشيخ صبحي حلاق: 423/1]
حضرت زید بن خالد جھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خیبر کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خائن شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی بلکہ دیگر احباب سے کہا:
صلوا على صاحبكم
”تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ۔“
[صحيح: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 447/1 ، أبو داود: 2710 ، كتاب الجهاد: باب فى تعظيم الغلول ، ابن ماجة: 2848 ، نسائي: 64/4 ، مؤطا: 458/2]
(شوکانیؒ ) اس سے معلوم ہوا کہ گنہ گار لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ ”البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز جنازہ غالبا خیانت سے ڈانٹنے کے لیے نہیں پڑھائی بعینہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کی نماز جنازہ خود تو نہیں پڑھائی لیکن لوگوں کو اس کا حکم دیا۔“ (لٰہذا اشراف طبقے کو چاہیے کہ وہ گنہ گاروں اور نافرمانوں کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں بلکہ عام لوگ خود ہی پڑھ لیں)۔
[نيل الأوطار: 700/2]
(البانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[أحكام الجنائز: ص/ 108-109]
(مالکؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ ، جمہور ) نافرمانوں کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔
[نيل الأوطار: 700/2]
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا کہ :
قتل نفسه بمشاقص فلم يصل عليه
”جس نے تیر کے ذریعے خود کشی کر لی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی ۔“
[مسلم: 978 ، كتاب الجنائز: باب ترك الصلاة على القاتل نفسه ، ترمذي: 1074 ، نسائي: 66/4 ، بيهقي: 19/4 ، أحمد: 97/5]
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کے متعلق فرمايا:
أما أنا فلا أصلى
”رہی بات میری تو میں اس کا جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 1855 ، كتاب الجنائز: باب ترك الصلاة على من قتل نفسه ، نسائى: 1966 ، ابن ماجة: 1526]
اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ عام افراد اس کا بھی نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں ۔
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوا أُولِى قُرْبَى [التوبة: 113]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی ہوں۔“
وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمُ عَلَى قَبْرِهِ [التوبة: 84]
”ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“
اگرچہ یہ آیت رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی لیکن چونکہ اس کا حکم عام ہے اس لیے ہر ایسا شخص جس کی موت کفر و نفاق پر ہو اس میں شامل ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا حکم دیا:
ولم يصل عليهم
”اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔“
[بخاري: 1343 ، كتاب الجنائز: باب الصلاة على الشهيد ، أبو داود: 3138 – 3139 ، نسائي: 1955 ، ابن ماجة: 1514 ، ترمذي: 1036]
شہدائے بدر کے متعلق بھی نماز جنازہ کا کوئی ذکر احادیث میں منقول نہیں حالانکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ہوتی تو دیگر صحابہ اسے ضرور بیان کرتے اس سے معلوم ہوا کہ شہداء پر نماز جنازہ پڑھنا واجب نہیں ۔
[نيل الأوطار: 698/2 ، أحكام الجنائز: ص/108]
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شہداء کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شہداء کی نماز جنازہ پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى خرج يوما فصلى على أهل احد صلاته على الميت
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد پر اس طرح نماز پڑھی جیسا کہ میت پر نماز پڑھی جاتی ہے۔“
[بخارى: 4042 ، كتاب المغازي: باب غزوة أحد]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرے کہ جن کا مثلہ کر دیا گیا تھا:
ولم يصل على أحد من الشهداء غيره يعنى شهداء احد
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد میں سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/ 107 ، أبو داود: 3137 ، كتاب الجنائز: باب فى الشهيد يغسل ، صحيح أبو داود: 2690]
➌ حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دیہاتیوں کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا کچھ مدت کے بعد لوگ دشمن سے قتال کے لیے گئے ، اس آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو اسے تیر لگ چکا تھا :
ثم كفنه النبى فى حبته ثم قدمه فصلى عليه ”پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جبے میں ہی اسے کفن دے دیا اور پھر اس کے آگے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 1845 ، كتاب الجنائز: باب الصلاة على الشهداء ، أحكام الجنائز: ص/ 106 ، نسائي: 1955]
➍ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے روز حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ایک چادر سے ڈھانپنے کا حکم دیا:
ثم صلى عليه فكبر تسع تكبيرات ثم أتى بالقتلى يصفون ويصلى عليهم وعليه معهم
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور نو تکبیریں کہیں، پھر دیگر شہداء لائے جاتے اور ان کی صف بنائی جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب پر اور ان کے ساتھ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ پڑھتے ۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص / 106 ، شرح معاني الآثار: 290/1]
(شافعیؒ ، احمدؒ ، مالکؒ) شہداء کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
(ابو حنیفہؒ) شہداء کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
[الأم: 446/1 ، الحاوى: 33/3 ، المغنى: 467/3 ، حاشية الدسوقي على الشرح الكبير؛42531 ، المبسوط: 49/2 ، الهداية: 9431 ، بدائع الصنائع: 324/1 ، نيل الأوطار: 696/2 ، تحفة الأحوذي: 114/3 – 115]
(راجح) شہدا کی نماز جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں انسان کو اختیار ہے لیکن زیادہ بہتر پڑھنا ہی ہے کیونکہ یہ دعا اور عبادت ہی ہے جو اجر و ثواب میں اضافے کا باعث ہے۔
(ابن قیمؒ) اس مسئلے میں درست بات یہ ہے کہ پڑھنے اور چھوڑنے میں اختیار ہے۔
[تهذيب السنن: 295/4]
(شوکانیؒ ) شہید کی نماز جنازہ پڑھنا ہی بہتر ہے۔
[نيل الأوطار: 697/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) شہید کی نماز جنازہ واجب نہیں لٰہذا پڑھنا اور چھوڑ نا دونوں طرح جائز ہے۔
[تحفة الأحوذي: 116/3]
(البانیؒ) پڑھنا اور چھوڑنا دونوں طرح درست ہے لیکن پڑھنا ہی افضل ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 108]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1