کیا حاملہ حائضہ ہوسکتی ہے :
اس مسئلے میں فقہاء کی دو آراء ہیں:
(مالکیہ ، شافعیه ) حاملہ عورت بعض اوقات حائضہ بھی ہو جاتی ہے۔ اس کی دلیل ” آيتِ محيض “ کا اطلاق ہے اور یہ بھی کہ حیض عورت کی طبیعت سے ہے۔ [بداية المجتهد 15/1 ، الشرح الصغير 211/1 ، مغنى المحتاج 118/1]
(احناف، حنابلہ ) بلاشبہ حاملہ خاتون حائضہ نہیں ہو سکتی۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر صرف دو حالتوں میں طلاق کا حکم ديا ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا ”پھر وہ پاکی کی حالت میں یا حالت حمل میں طلاق دے ۔“
[بخارى: 7160 ، كتاب الأحكام: باب هل يقضى القاضى أو يفتي وهو غضبان ، مسلم 1090 ، كتاب الطلاق: باب تحريم طلاق الحائض بغير رضاها ، أبو داود 500/1 ، عارضة الأحوذى 123/5 ، دارمي 120/2 ، موطا 576/2 ، أحمد 43/2-51]
محل شاہد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کو بعینہ حیض نہ ہونے کی علامت قرار دیا جس طرح طہر کو اس کی علامت کہا۔
[الدر المختار 263/1 ، المغني 361/1 ، كشاف القناع 232/1]
(شیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدی) امام احمدؒ سے دوسری روایت یہ ہے کہ بعض اوقات حاملہ بھی حائضہ ہو جاتی ہے اور یہی صحیح ہے… اور اسی کو ہم نے اختیار کیا ہے۔ [الفتاوى السعدية ص/ 134 ، فتاوى المرأة المسلمة 266/1]
حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا کیسا ہے :
حائضہ کے ساتھ خورد و نوش میں شرکت کرنا حتی کہ اس کا جوٹھا کھانا بھی جائز ہے جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہو جاتی تو وہ اس کے ساتھ کھانا پینا اور گھروں میں میل جول رکھنا چھوڑ دیتے تھے۔ صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی : وَيَسْئلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيضِ [البقرة: 222] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
واصنعوا كل شئ إلا النكاح
” تم ان سے ہر طرح کا فائدہ اٹھا سکتے ہو البتہ جماع و ہم بستری نہیں کر سکتے ۔“
[مسلم 302 ، كتاب الحيض: باب جواز غسل الحائض رأس زوجها و ترجيله ، أبو داود 258، ترمذي 2977 ، نسائي 187/1 ، ابن ماجة 644 ، بيهقى 313/1 ، ابن حيان 1352 ، أبو عوانة 311/1 ، أحمد 132/3 دارمي 245/1]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ :
كنت أشرب وأنا حائض ثم أنا وله النبى فيـضـع فاه على موضع فى فيشرب وأتعرق العرق وأنا حائض ثم أنا وله النبى فيضع فاه على موضع في
”میں حالت حیض میں پانی پیتی اس کے بعد وہ برتن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہونٹوں کی جگہ پر اپنے ہونٹ رکھتے اور پانی پیتے، اور جب (دانتوں کے ساتھ ) ہڈی سے گوشت اتارتی جبکہ میں حائضہ ہوتی اس کے بعد میں وہ ہڈی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دانت میرے دانتوں کی جگہ پر رکھتے ۔
[مسلم 300 ، أيضا ، أبو داود 259 ، نسائي 56/1 ، ابن ماجة 643 ، أحمد 62/6 ، حميدي 166 ، ابن خزيمة 110]
(طبریؒ) حائضہ کے ساتھ کھانے پینے کے جواز پر اجماع ہے۔ [تفسير طبري 397/2]
(ترمذیؒ) (حائضہ کے ساتھ کھانا جائز ہے ) یہی عام اہل علم کا قول ہے اور وہ (یعنی علماء ) حائضہ کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔
[ترمذي بعد الحديث 133]
طواف بیت اللہ کے علاوہ حائضہ تمام مناسک ادا کرے گی :
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ :
فافعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفى بالبيت حتى تظهري
” تم پاکیزہ ہونے تک بیت اللہ کے طواف کے علاوہ وہ تمام کام کرو جو حاجی کرتے ہیں۔ “
[بخاري: 305 ، كتاب الحيض: باب تقضى الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت]
حائضہ عورت اپنے خاوند کے سر میں کنگھی کرسکتی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لو كنت أرجل رأس رسول الله و أنا حائض ”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں کنگھی کیا کرتی تھی اور میں حائضہ ہوتی تھی ۔“
[بخاري 295 ، كتاب الحيض: باب غسل الحائض رأس زوجها و ترجيله]
خاوند اپنی حائضہ بیوی کی گود میں قرآن پڑھ سکتا ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان النبى كان يتكي فى حجرى وأنا حائض ثم يقرأ القرآن
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں ٹیک لگا لیتے اور میں حائضہ ہوتی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تھے ۔“
[بخارى: 297 ، كتاب الحيض: باب قراءة الرجل فى حجر امرأته وهى حائض]
حیض آلود کپڑا دھونا :
چونکہ حیض کا خون نجس و پلید ہے لہذا جس کپڑے کو یہ خون لگ جائے اسے دھونا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا أصاب ثوب إحداكن الدم من الحيضة فلتقرصه ثم لتنضحه بماء ثم لتصلي فيه
”جب تم میں سے کسی عورت کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو اسے چاہیے کہ اس کپڑے کو ملے پھر اس پر پانی کے چھینٹے مارے پھر اس میں نماز پڑھے۔“
[بخاري 307 ، كتاب الحيض: باب غسل دم الحيض]
حائضہ کے ساتھ سونا جائز ہے :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی اتنے میں مجھ کو حیض آگیا اور میں نکل بھاگی اور اپنے حیض کے کپڑے سنبھالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے نفاس (یعنی حیض) ہوا ہے؟ تو میں نے کہا جی ہاں!
فدعاني فأدخلني معه فى الخميلة
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور اپنے ساتھ چادر میں داخل کر لیا۔ “
[بخاري 322 ، كتاب الحيض: باب النوم مع الحائض وهى فى ثيابها]
حائضہ عورت اور عیدین:
حائضہ عورت پر عید کے دن عید گاہ میں جاکر مسلمانوں کی دعا میں شریک ہونا ضروری ہے۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ”دیگر خواتین کی طرح حائضہ عورتیں بھی خیر اور مسلمانوں کی دعوت میں شریک ہوں لیکن نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔“ [بخاري: 324 ، كتاب الحيض: باب شهود الحائض العيادين ودعوة المسلمين ويعتزلن المصلى]
حائضہ عورت بوقت ضرورت مسجد میں داخل ہو سکتی ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ناولينى الخمرة من المسجد ”مجھے مسجد سے مصلی پکڑاؤ تو حضرت رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا میں تو حائضہ ہوں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان حيضتك ليست فى يدك ”كه تيرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔“ [مسلم 299 ، كتاب الحيض: باب جواز غسل الحائض رأس زوجها و ترحيله]
حالت حیض میں عورت کو طلاق دینا حرام ہے :
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کا حکم دینے کے بعد فرمایا ”اسے چاہیے کہ وہ اسے پاکیزگی کی حالت میں یا حالت حمل میں طلاق دے۔“
[بخارى: 7160 ، كتاب الأحكام: باب هل يقضى القاضى أو يفتى وهو غضبان ، مسلم 1095 ، كتاب الطلاق: باب تحریم طلاق الحائض بغير رضاها ، أبو داود 500/1 ، عارضة الأحوذى 123/5 ، دارمي 160/2 ، موطا باب تحريم – 576/2 ، احمد 26/2]
اگر عورت کو وقفے وقفے سے حیض آئے :
یعنی بالفرض عورت کو چار دن حیض آئے پھر تین دن بعد دوبارہ آنے لگے تو وہ کیا کرے؟ اس مسئلے میں راجح موقف یہی ہے کہ وہ جب خون کو دیکھے نماز روزہ ترک کر دے اور اس کا خاوند بھی اس سے مباشرت نہ کرے اور جب خون ختم ہو جائے، خواہ وہ درمیانی وقت ہو یا اس کے علاوہ، وہ غسل کر کے پاکیزہ خواتین کی طرح تمام افعال سرانجام دے اور اگر عادت کے ایام میں کچھ کمی بیشی ہو جائے تو پھر وہ اس اصول پر عمل کرے گی (یعنی عادت کے ایام پورے کرے گی ) ۔
[فتاوي اين باز مترجم 55/1 ، الفتاوى السعدية ص/135 ، فتاوى المرأة المسلمة 267/1]
مستحاضہ عورت سے جماع کرنا جائز ہے :
➊ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ وہ مستحاضہ ہوتیں : و كان زوجها يجامعها ”اور ان کا خاوند ان سے جماع و ہم بستری کرتا تھا ۔“
[حسن: صحيح أبو داود 303 ، كتاب الطهارة: باب المستحاضة يغشاها زوجها ، أبو داود 310]
➋ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبیہ رضی اللہ عنہا استحاضہ کی بیماری میں مبتلا ہوتی تھیں كان زوجها يغشاها ”اوران کا خاوندان سے مباشرت کرتا تھا ۔ “
[صحيح: صحيح أبو داود 302 ، أيضا ، أبو داود 309]
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں ۔ [نيل الأوطار 411/1]
کیا حیض ختم ہونے کی آخری عمر مقرر ہے :
(شیخ عثیمینؒ) حیض ختم ہونے کی کوئی معین عمر نہیں ہے بلکہ جب بھی حیض کا خون ختم ہو جائے کہ اس کے دوبارہ آنے کی امید باقی نہ رہے تو وہی اس کی عمر ہوگی۔
[فتاوى المرأة المسلمة: 268/1 ، فتاوى الحرم ص/286 ، مجموع فتاوي عثيمين 270/4 ]
(راجح) یہی موقف راج ہے۔ [المجموع 374/2]
ولادت کے بعد اگر نفاس کا خون نہ آئے :
تو کیا ایسی عورت پر نماز، روزہ ضروری ہے یا نہیں؟
ایسی عورت کے متعلق ”سعودی مجلس افتاء“ کا یہی فتوی ہے کہ جب حمل وضع ہو جائے اور خون نہ نکلے تو اس عورت پر غسل ، نماز اور روزہ (سب ) واجب ہے اور غسل کے بعد اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع بھی جائز ہے۔ [فتاوى اللجنة 420/1]
نفاس والی عورت کو اگر وقفے وقفے سے خون آئے :
نفاس والی عورت اگر چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے لیکن کچھ دنوں بعد چالیس دن کے اندر اسے دوبارہ خون آنے لگے تو کیا اسے نفاس ہی سمجھا جائے گا؟ اگر وہ عورت چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے اور نماز ، روزہ اور دیگر عبادات ادا کرنے لگے لیکن اس کے بعد دوبارہ خون آ جائے تو صحیح بات یہی ہے کہ چالیس دنوں کی مدت کے اندر سے نفاس ہی سمجھا جائے گا اور جوروزے ، نمازیں اور حج اس نے حالت طہارت میں ادا کیے تھے وہ سب صحیح ہیں ان میں سے کسی بھی چیز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ۔
[فتاوي ابن باز مترجم 54/1]
حائضہ کے لیے قراءت قرآن :
قراءت قرآن اور قرآن پکڑ نا وغیرہ جیسے مسائل باب الغسل میں گزر چکے ہیں نیز نفاس والی عورت کا بھی یہی حکم ہے۔
مانع حیض ادویات استعمال کرنا :
(شیخ عثیمینؒ ) عورت کے لیے حیض روکنے والی ادویات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ اسے صحت کے حوالے سے کوئی ضرر و نقصان نہ ہو بشرطیکہ وہ اپنے خاوند سے اجازت لے کر ایسا کرے۔
لیکن فی الواقع ایسی ادویات ضرر سے عاری نہیں ہوتیں اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ حیض کا خون طبیعی طور پر خارج ہوتا ہے لہذا جب کسی طبعی چیز کو اس کے وقت میں روک دیا جاتا ہے تو اس سے جسم میں نقصان کا حصول ناگزیر ہوتا ہے اور اسی طرح ایسی ادویات کا نقصان یہ بھی ہے کہ یہ عورت پر اس کی عادت حیض میں اختلاط و اختلاف ڈال دیتی ہیں جس بنا پر وہ اضطراب و پریشانی کا شکار رہتی ہے اور نماز یا خاوند کی اس سے مباشرت اور اس کے علاوہ دیگر افعال میں بھی تشکیک کا محور ہوتی ہے اس لیے میں اسے حرام تو نہیں کہتا لیکن عورت کے لیے اسے پسند اس لیے نہیں کرتا کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔
عورت کے لیے یہی بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے اسی پر رضا مندر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو وہ رو رہی تھیں اور انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوا ہے؟ شاید کہ تم حائضہ ہو گئی ہو؟ انہوں نے کہا ”ہاں“ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا هذا شيئ كتبه الله على بنات آدم ” یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں پر لازم قرار دیا ہے۔“
اس لیے عورت کو چاہیے کہ صبر و احتساب سے ہی کام لے اور جب حیض کی وجہ سے نماز و روزہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو ذکر کا دروازہ بلاشبہ کھلا ہوا ہے وہ اللہ کا ذکر کرے، تسبیح بیان کرے، صدقہ و خیرات کرے، قول و فعل سے لوگوں پر احسان کرے، یہی افضل ترین کام ہے۔
[مجموع الفتاوي شيخ عثيمين 283/4 ، فتاوى المرأة المسلمة 269/1]
حائضہ صرف روزوں کی قضائی دے گی
حضرت معاذہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضائی تو دیتی ہے لیکن نماز کی قضائی نہیں دیتی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں ایسی حالت در پیش ہوتی تو فتؤمر بقضاء الصوم ولا تؤمر بقضاء الصلاة ”ہمیں روزے کی قضائی کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضائی کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود 236 ، كتاب الطهارة: باب فى الحائض لا تقضى الصلاة ، أبو داود 263 ، أحمد 232/6 ، بخاري 321 ، مسلم 335 ، ترمذي 130، نسالي 191/1، ابن ماجة 631، أبو عوانة 324/1 ، دارمي 233/1 ، بيهقي 308/1]
(نوویؒ) اس مسئلے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ [المجموع 351/2-355]
(شوکانیؒ ) اس مسئلے پر اس امت کے سلف وخلف اور سابق و لاحق کا اجماع ہے اور علمائے اسلام میں سے کسی ایک سے بھی اس میں اختلاف نہیں سنا گیا۔ [السيل الجرار 148/1]
(ابن منذرؒ ) علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ عورت پر حالت حیض میں فوت شدہ نمازوں کی قضائی واجب نہیں ہے البتہ حالت حیض میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضائی اس پر واجب ہے۔ [الإجماع لابن المنذر ص 37 رقم 29،28]
امام ابن عبد البرؒ رقمطراز ہیں کہ خوارج کا ایک گروہ حائضہ عورت پر نماز کی قضاء کو واجب قرار نہیں دیتا۔
[مقالات الإسلاميين لأبي الحسن الأشعرى ص 86-131 ، الفرق بين الفرق للبغدادي ص72-113]
(صدیق حسن خانؒ) (خوارج کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ) اجماع امت میں ایسے لوگوں کی مخالفت ”جو کہ کلاب النار ہیں“ کچھ اثر نہیں رکھتی ۔ [الروضة الندية 190/1]