ذیل میں اس اہم مسئلے کی تفصیلی وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ مضمون میں مختلف علمائے کرام کے حوالہ جات، ان کے دلائل اور نتائجِ فکر شامل کیے گئے ہیں۔ ممکن حد تک اختصار کرتے ہوئے بھی تمام اہم حوالہ جات کو محفوظ رکھا گیا ہے، تاکہ کسی حوالے کو ترک یا حذف نہ کیا جائے۔ البتہ عبارت کو زیادہ منظم اور آسان بنانے کے لیے سرخیاں، ذیلی عنوانات اور بلٹ پوائنٹس کا استعمال کیا گیا ہے۔
ابتدائیہ
مسئلۂ حیاتِ نبوی ﷺ مسلمانوں میں ایک علمی و اعتقادی بحث کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ضمن میں کئی آرا پائی جاتی ہیں، جن میں سے بعض حضرات حیاتِ برزخی کے قائل ہیں، بعض حیاتِ دنیوی کی صراحت کرتے ہیں اور کچھ علماء دنیوی اور برزخی تعبیرات میں مزید مختلف تفصیلات بیان کرتے ہیں۔
متعدد کتب و رسائل — جن میں امام بیہقیؒ، امام سیوطیؒ، حافظ ابن القیمؒ، شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، امام شوکانیؒ، علامہ آلوسیؒ وغیرہ کی تحریریں شامل ہیں — اس موضوع پر موجود ہیں۔ بعض علماء نے حیاتِ انبیاء علیہم السلام کو شہداء کی حیاتِ برزخی پر قیاس کیا، اور بعض نے اسے دنیوی معنی میں بھی پیش کیا ہے۔
یہ مضمون اسی بحث کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف حوالہ جات پیش کرتا ہے، جن میں علمائے دیوبند، علمائے اہلحدیث اور دیگر فقہائے کرام اور محدّثین کی آرا بھی شامل ہیں۔
1) مسئلۂ حیاتِ نبوی: پس منظر اور تاریخی تناظر
1.1) مجلہ ’’دار العلوم‘‘ اور مسئلۂ حیاتِ دنیوی
- مجلہ دارالعلوم کے بعض مضمون نگاروں نے شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے بعد اکابرِ دیوبند کی اس صراحت کو نقل کیا کہ آنحضرت ﷺ کو حیاتِ دنیوی حاصل ہے۔
- ان حضرات نے امام بیہقیؒ اور امام سیوطیؒ وغیرہ کے رسائل کا بھی ذکر کیا مگر کہا کہ ان میں حیاتِ دنیاوی کی صراحت نہیں ملتی بلکہ بیشتر عبارات میں حیاتِ برزخی کی طرف رجحان پایا جاتا ہے۔
- حافظ سیوطیؒ نے زندگی کے دلائل کو جمع کیا ہے لیکن آیت إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّهُم مَّیِّتُونَ (الزمر) اور حدیث فَیَرُدُّ اللّٰہُ عَلَیَّ رُوحِی اور الأنبیاء أحیاء في قبورهم جیسے دلائل کے درمیان تعارض کا واضح ازالہ نہیں کیا۔
1.2) ضرورتِ تصفیہ
- مضمون نگاروں کے نزدیک سب سے درست طریقہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کے دلائل کے ساتھ ساتھ اکابر کے اصل نظریات دیکھے جائیں۔
- مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا قاسم نانوتویؒ نے بعض مقامات پر حیاتِ دنیوی کا عندیہ دیا۔ اسی طرح دوسرے اکابر سے بھی مختلف عبارتیں نقل کی جاتی ہیں۔
- تاہم بانیانِ تحریکِ اہل توحید یا تحریکِ دیوبند کے اصل مزاج میں ایسی تاویلات کا وجود ایک سوال بنا دیا گیا ہے کہ کیا واقعی حیاتِ دنیوی کی نسبت درست ہے یا نہیں؟
2) شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور تحریکِ توحید
2.1) جہادِ بالا کوٹ اور تصورِ عمل
- شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ نے تقویۃ الایمان، تزکر الاخوان اور دیگر رسائل کے ذریعے تحریکِ توحید کی ترجمانی کی۔
- انہوں نے کتابی مباحث سے آگے بڑھ کر بالاکوٹ میں عملی جہاد کا راستہ اختیار کیا۔
- آپ کے نزدیک محض تصانیف اور مکالمات کافی نہیں تھے بلکہ تلوار اور میدان جنگ میں بھی حق و صداقت کے جوہر دکھانا ضروری سمجھا۔
2.2) تقویۃ الایمان اور ردّ بدعات
- شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب تقویۃ الایمان کے ذریعے شرک و بدعت کے خلاف بھرپور اصلاحی کام ہوا۔
- اگر اکابر دیوبند یا علمائے اہلحدیث کی کوئی ایسی عبارت ملے جو تحریکِ توحید کی اصل روح سے متصادم دکھائی دیتی ہو تو انحراف پر نظرِثانی ہونی چاہیے۔
3) تیسرا ہنگامہ: تحریک شاہ ولی اللہؒ اور ردّ بدعت
- شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک نے احیائے سنت اور تجدیدِ دین میں عظیم قربانیاں دیں، مگر بالمقابل ایک تحریک ایسی اٹھی جس نے بدعات کے جواز اور عوام کی بدعملی کے لیے راستے نکالنے کی کوشش کی۔
- مغلیہ دور اور اس کے زوال کے بعد سکھوں، مرہٹوں، انگریزوں، اہلِ توحید سب اپنے اپنے انداز میں متحرک ہوئے۔
- 1857ء میں انگریز نے علماء کی ایک جماعت سے مفاہمت اختیار کرلی، جبکہ دوسری طرف تحریکِ توحید کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
3.1) مولوی احمد رضا خان اور تحریکِ بدعت
- مولوی احمد رضا خاں بریلوی کی ولادت 1274ھ (یا 1865ء) میں ہوئی۔ آپ نے عوامی بدعات کے جواز کے لیے بے شمار کتابیں لکھیں۔
- انگریز دور میں "تکفیر” کے فتووں کی بھرمار انہی کے یہاں سے چلتی رہی اور یوں اہل بدعت کو منظم کرنے اور ہر بدعت کو جواز دینے کی مہم جاری رہی۔
- حقیقتاً ان کی تحریک کا مقابلہ کتاب و سنت سے تھا۔ انہی کی طرف سے شہدائے بالا کوٹ اور دیگر اکابر اہل حق کی مخالفت ہوئی، جسے اہل حق نے ناکام بنادیا۔
4) محلِّ نزاع: حیاتِ انبیاء اور محلِ بحث
- اس موضوع پر امام بیہقیؒ اور ان کے بعد امام سیوطیؒ وغیرہ نے کچھ لکھا، لیکن ”محلِ نزاع کا تعین“ صراحت سے نہ ہوسکا۔
- کتاب الروح (ابن القیم)، حافظ سیوطیؒ کی کتب، اور حافظ سبکیؒ کے رسائل میں حیاتِ انبیاء کا اثبات تو ہے، مگر دنیوی یا برزخی پہلو پر اختلاف ہے۔
- اہل سنت کے دونوں مکاتب: اہلحدیث اور فقہائے کرام حنفیہ، شوافع، مالکیہ، حنابلہ سب انبیاء اور شہداء کی حیات کے قائل ہیں۔ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ دنیوی حیات ہے یا برزخی۔
4.1) اہم نکات
- انبیاء علیہم السلام کی زندگی برزخی حیات ہے یا دنیوی؟
- حیاتِ انبیاء کی بنا پر کیا دنیوی تکالیف، مثلاً نکاح وغیرہ، ثابت ہوتے ہیں؟
- کیا یہ حیات روح و جسم دونوں پر مشتمل ہے یا صرف روحانی؟
- شہدائے کرام کی حیات بھی نص قرآن سے ثابت ہے (سورۃ البقرہ، آل عمران)، مگر اس زندگی کو بھی عند ربہم یرزقون فرما کر دنیوی زندگی سے الگ بتایا گیا۔
5) حیات النبی ﷺ: بریلوی عقیدہ
- مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ جلد اول کے ص610-611 پر لکھا کہ:
"انبیاء علیہم السلام پر ایک آن کے لیے موت آتی ہے، اس کے بعد روحانی و جسمانی حیات دنیوی انہیں حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا اور ازواج کو نکاح کی اجازت نہیں۔ البتہ شہداء کی زندگی اس کے خلاف ہے؛ ان کا ترکہ تقسیم اور بیویاں نکاح کرسکتی ہیں۔”
یہ حیاتِ حقیقی دنیوی کا ایک نظریہ ہے جسے بریلوی کتب میں اہل سنت کا اجماعی عقیدہ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔
6) دیوبندی علما سے ہم نوائی یا اختلاف؟
- مولانا حسین احمد مدنیؒ نے مکاتیب (ج1 ص130) میں لکھا:
"آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی اور از قسم حیات دنیوی ہے، بلکہ بہت وجوہ سے قوی تر ہے۔”
- سنا جاتا ہے کہ مولانا نانوتویؒ اور بعض اکابر دیوبند بھی اس قسم کی رائے رکھتے تھے۔
- شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے بھی مدارج النبوۃ میں حیاتِ دنیوی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح حافظ سیوطیؒ نے سبکیؒ سے حوالے نقل کیے ہیں۔
مگر:
- فقہائے احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ کی عام کتب میں یہ صراحت نہیں ملتی کہ حیاتِ دنیوی ہی ہے۔
- کئی دیوبندی علماء، مثلاً مولانا حسین علی (واح بچھراں) اور ان کے تلامذہ، مولانا نصیر الدین وغیرہ، اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں۔
7) چند غور طلب گزارشات
مضمون نگار نے حیاتِ دنیوی کے نظریے پر چند سوالات اٹھائے ہیں:
❀ 1. اجماع اور تواتر کا دعویٰ؟
- امت میں یہ دعویٰ کہ دس آدمی بھی اس کے قائل نہیں تو پھر اسے اجماعی عقیدہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
- تواتر کے لیے حسی ادراک ضروری ہوتا ہے، جب کہ یہاں لا تشعرون (تم شعور نہیں رکھتے) جیسی آیات موجود ہیں۔
❀ 2. تحریکِ توحید کا مزاج:
- اس میں تو سماع موتیٰ کی گنجائش بھی کم دکھائی دیتی ہے، چہ جائیکہ حیاتِ دنیوی مانی جائے۔
❀ 3. ترکہ اور نکاح:
- اگر انبیاء کی حیات بھی ویسی ہی دنیوی ہوتی تو ان کے ترکے کی تقسیم اور ازواج کے نکاح پر ویسا ہی حکم لاگو ہونا چاہیے، جیسا کہ شہداء کے لیے ہے۔
❀ 4. یہ عقیدہ کتبِ عقائد میں نہیں:
- شرح عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، عقیدہ صابونیہ وغیرہ میں اس کا ذکر نہیں۔
❀ 5. مرنے کے بعد کے احکام:
- موت کے تمام تر فقہی احکام (عدت، وراثت وغیرہ) انبیاء کے حق میں کیوں لاگو ہوئے؟
❀ 6. سوالات عقل اور تاریخ:
- اگر آنحضرت ﷺ اس دنیا میں بدستور زندہ ہیں تو حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کیسے عمل میں آئی؟ صحابہؓ کو فتنہ ارتداد، جنگیں اور دیگر مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرنے کی کیا ضرورت محسوس نہ ہوئی؟ وغیرہ۔
8) حیاتِ دنیوی اہل بدعت کا مسلک؟ ابن القیمؒ کا بیان
- حافظ ابن القیمؒ نے اپنی قصیدہ نونیہ میں حیاتِ دنیوی کے نظریے کو اہلِ بدعت اور معطلہ کا مسلک قرار دیا ہے۔
- وہ لکھتے ہیں کہ اگر واقعی نبی زندہ ہوتے تو زمین کے نیچے کیوں رہتے، اوپر آکر تعلیم و تربیت فرماتے؟
"اگر یہ زندگی دنیوی ہو، تو اللہ کے رسول ﷺ کو زمین کے اوپر رہنا چاہیے تھا۔ سوالات کا جواب دیتے، امت کے مسائل حل فرماتے۔ اگر زیرِ زمین ہیں اور جواب دینے سے بھی معذور، تو پھر یہ کیسی زندگی؟”
9) موت سے خوف کیوں؟
- قرآنِ پاک نے مومن کے لیے موت کو شر یا توہین کی چیز قرار نہیں دیا۔
- آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت صحابہؓ کا اجماع، دفن، غسل و کفن، عدت وغیرہ سب امور ایک طے شدہ حقیقت ہیں۔
- موت کا لغوی معنیٰ روح و جسم کا جدا ہوجانا ہے۔ اس کے بعد حیاتِ برزخی یقیناً ایک برتر زندگی ہوسکتی ہے، مگر دنیوی لوازمات کے ساتھ اسے زندہ سمجھنا عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔
10) آیاتِ قرآنی اور شہداء کی حیات
- سورۂ بقرہ میں ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ… (مت کہو کہ وہ مردہ ہیں)
- سورۂ آل عمران میں ہے: بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور انھیں رزق دیا جاتا ہے)
- اس سے شہداء کی حیات برزخی ثابت ہوتی ہے جس میں رزقِ برزخی، تسبیح، عبادت وغیرہ کے دلائل ملتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسی دنیا کے طور طریق پر جسمانی حیات رکھیں۔
قیاس انبیاء علیہم السلام پر:
- بعض حضرات ان آیات سے انبیاء علیہم السلام کے لیے دنیوی زندگی کا بھی اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ محل نظر ہے؛ شہداء کے ترکے کی تقسیم اور بیواؤں کے نکاح جواز کے ساتھ ساتھ انبیاء کے حق میں منع ہے، تو یکساں حیاتِ دنیوی کیسے ثابت ہوگی؟
11) حافظ ابن جریر اور توضیحِ حیاتِ شہداء
- حافظ ابن جریرؒ تفسیر میں فرماتے ہیں کہ شہداء کو جزائے اعمال کے طور پر عالمِ برزخ میں حیات دی گئی، جس میں جنت کے کھانے اور لذائذ سے وہ فیض یاب ہوتے ہیں۔
- یہ حیات دنیوی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔
علامہ آلوسیؒ کا بیان
- علامہ شہاب الدین آلوسیؒ (صاحب روح المعانی) کے نزدیک بھی شہداء اور انبیاء کی زندگی برزخی ہے۔
- وہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ اللہ کی قدرت سے یہ ممکن ہے کہ جسم خاک نہ کھائے، لیکن دنیوی زندگی کا تصور فتنے اور شبہے کو جنم دیتا ہے۔
12) احادیث کے حوالے: ایک مختصر جائزہ
ذیل میں وہ بعض احادیث ہیں جن سے حیاتِ انبیاء کا عمومی مفہوم اخذ کیا جاتا ہے، لیکن حیاتِ دنیوی کی صراحت ان میں اکثر جگہ نہیں ملتی، یا ان کی اسناد محلِ نظر ہیں۔
حدیث نمبر 1: الأنبیاء أحياء في قبورهم يُصلّون
- بیہقی نے روایت کیا، لیکن اس کی سند میں حسن بن قتیبہ خزاعی ہیں جنھیں ابو حاتم، دارقطنی، ازدی اور عقیلی نے ضعیف، واہی الحدیث اور متروک الحدیث کہا۔
- ابن القیمؒ نے بھی اسے غیر صحیح قرار دیا۔
حدیث نمبر 2،3،4: موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز ادا کرتے دیکھنا
- ان احادیث میں معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات اور نماز کا ذکر ہے، لیکن یہ سب عالمِ برزخ کے واقعات پر محمول ہیں۔
حدیث نمبر 5: إنّ اللہ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء
- ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ میں وارد ہوا۔ ابن خزیمہ اور حاکم نے بعض طرق کو صحیح کہا، مگر ائمہ جرح و تعدیل کے ہاں اس پر بھی بحثیں ملتی ہیں۔
- اگر صحیح بھی تسلیم کرلیں تو زیادہ سے زیادہ جسم کی حفاظت ثابت ہوتی ہے، حیاتِ دنیوی نہیں۔
حدیث نمبر 6: فیردُّ اللہ علیَّ روحی
- سلام پیش کرنے والے کے سلام کا جواب دینے کے لیے آنحضرت ﷺ کی روح واپس لوٹائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں حافظ سیوطیؒ کے کئی جوابات ہیں جن میں تذبذب بھی نظر آتا ہے۔
- اس حدیث سے بھی حیاتِ دنیوی نہیں نکلتی؛ یہ برزخی تعلق ہی کی وضاحت کرتی ہے۔
حدیث نمبر 7,8,9,10: واقعہ اسراء، ملاقاتِ انبیاء
- اسراء کے دوران بیت المقدس اور آسمانوں میں انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتوں کے واقعات ملتے ہیں۔
- حافظ ابن حجر نے ان واقعات کو روحانی یا برزخی تعبیر کیا ہے، دنیوی زندگی نہ مانا۔
13) حکایات و قصص:
- مختلف کتب، مثلاً کتاب الروح (ابن القیم)، شرح الصدور، خصائص کبریٰ وغیرہ میں صلحاء اور بعض شہداء کے قصوں کا ذکر ہے جن میں قبروں سے قرض کی اطلاع یا خواب میں دیدار کا بیان ملتا ہے۔
- یہ حکایات شرعی حجت نہیں۔ اور اس سے حیاتِ دنیوی کا ثبوت ممکن نہیں۔
14) حیاتِ انبیاء: خلاصہ دلائل
- قرآنِ مجید میں انبیاء علیہم السلام کی وفات اور ان کے برزخی احوال کے متعدد اشارے موجود ہیں۔ اس پر صحابہؓ کا اجماع اور تعامل بھی ہے۔
- احادیث میں بھی آنحضرت ﷺ کی تدفین، نمازِ جنازہ، ازواجِ مطہراتؓ کا سوگ منانا، صحابہؓ کا جنازہ پڑھنا وغیرہ سب موت کی تصدیق ہے۔
- حیاتِ برزخی اور اجسامِ مبارکہ کا محفوظ رہنا ایک الگ امر ہے جس پر اختلاف کم ہے، جبکہ حیاتِ دنیوی کہہ کر دنیاوی لوازم اور تکالیفِ شرعیہ کو قبور میں زندہ ماننا ایک ایسی بات ہے جسے بیشتر محققین نے قبول نہیں کیا۔
15) مولانا قاسم نانوتویؒ کی ’’آبِ حیات‘‘ اور تاویلات
- مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی کتاب آبِ حیات میں شیعی اعتراضات کا جواب دینے کے لیے حیاتِ دنیوی کا تذکرہ ہے۔
- انہوں نے حدیث یَرُدُّ اللّٰہُ عَلَیَّ رُوحِی کی ایک صوفیانہ اور مناظرانہ تاویل کی ہے۔
- اگرچہ مولانا نانوتویؒ کا مقام بلند ہے، مگر اس تاویل پر متعدد علماء نے تنقید فرمائی کہ یہ نصوص کے ظاہری مفہوم سے ہم آہنگ نہیں۔
مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اکابر:
- بعض اکابر دیوبند نے بھی اس کے حق میں تحریریں لکھیں، مگر دوسری طرف متعدد علماء، خصوصاً اہلحدیث اور خود بعض دیوبندی بزرگان نے اسے خلافِ ظاہرِ نصوص قرار دیا۔
16) بریلوی علم کلام کے اثرات
- مضمون میں یہ بھی ذکر ہے کہ بریلوی مکتب میں غلو فی الدین اور اکابر کی اندھی تقلید عروج پر ہے۔ بدقسمتی سے کچھ دیوبندیوں میں بھی مبالغہ آمیز عشقِ اکابر کے زیراثر بعض تاویلات کو قبول کرلیا گیا۔
- یہی وجہ ہے کہ حیاتِ دنیوی کا عقیدہ ایک مخصوص فہم کے ذریعے دونوں جانب کے چند افراد میں رواج پاگیا ہے، حالانکہ معروف و غالب مسلک حیاتِ برزخی کا ہے۔
17) چند مزید شبہات اور جوابات
- بعض حضرات حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیوں کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکالیں۔ بعض روایات میں تابوت کا حوالہ ہے۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ تمام انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی کے مضمون سے تعارض پیدا ہوتا ہے۔
- تاہم یہ روایات اکثر اسرائیلیات کے زمرے میں آتی ہیں یا اسناداً کمزور ہیں۔ اس کے مقابلے میں ابن ماجہ کی روایت إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ وغیرہ کو جمہور نے تسامحاً قبول فرمایا ہے۔
- اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی قدرت سے انبیاء کے اجساد محفوظ ہوتے ہیں، لیکن یہ "دنیوی زندگی” ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
نتیجۂ کلام
- اجماعِ امت اسی بات پر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات بعد از وفات برزخی نوعیت کی ہے، جس میں انہیں عبادت، تسبیح و تہلیل اور دیگر برزخی معاملات حاصل ہیں۔
- دنیوی زندگی کے تمام لوازم و تکالیف کا اطلاق کرنا، یا انہیں عام انسانوں کی زندگی جیسا سمجھنا فقہائے امت اور محدثین کے نزدیک درست نہیں۔
- بعض علماء نے مناظرانہ اسلوب یا صوفیانہ ذوق کے باعث حیاتِ دنیوی کا تاثر دیا، لیکن اس پر بڑے پیمانے پر اختلاف ہوا۔
- کتاب و سنت کی صاف تصریحات اور صحابہؓ کے عمل سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ویسی ہی حقیقت ہے جیسی دیگر مخلوق کے لیے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ آپ کو موت کے بعد حیاتِ برزخی کا اعلیٰ مقام حاصل ہے، جس میں اجسادِ مبارکہ کا تحفظ اور عبادتِ برزخی وغیرہ کے دلائل ملتے ہیں۔
- اس مسئلے میں غلو یا غیر محتاط عبارات کے استعمال سے بدعات کو تقویت ملتی ہے، اسی لیے محتاط اور محقق علماء نے سنتِ صحابہؓ کے مطابق موقف اپنانے پر زور دیا ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ
◈ حیاتِ انبیاء علیہم السلام کا اصل محور برزخ ہے، نہ کہ یہ دنیا۔
◈ قرآن و سنت میں موت کے عمومی احکام انبیاء کے لیے بھی ثابت ہیں (جنازہ، دفن وغیرہ)۔
◈ شہدائے کرام کی طرح انبیاء بھی زندہ ہیں، لیکن ان کی زندگی عند ربہم ہے؛ دنیوی تکالیف سے جدا ایک برتر صورت۔
◈ حیاتِ دنیوی کا دعویٰ بہت سی عقلی اور نقلی الجھنیں پیدا کرتا ہے، لہٰذا ائمہ محدثین نے اسے قبول نہیں کیا۔
◈ ابن القیمؒ، علامہ آلوسیؒ، امام ابن جریرؒ اور دیگر محققین نے اس مسئلہ میں برزخی حیات کو راجح کہا ہے۔
اختتامی کلمات
مسئلۂ حیاتِ نبوی ﷺ میں دینی غیرت اور احترامِ رسالتﷺ دونوں ملحوظ رہنے چاہئیں۔ اسی کے ساتھ مناظرانہ یا جدلی اندازِ بیان کی بجائے قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہؓ کو رہنما بنایا جائے۔ اہلِ سنت کے اکابر کی عظمت بجا، لیکن یہ یاد رہے کہ کسی کا بھی قول کتاب و سنت سے بالاتر نہیں۔ حیاتِ برزخی پر سب کا اتفاق ہے، جبکہ حیاتِ دنیوی کی نسبت کے لیے واضح دلائل کا فقدان ہے اور اس کے کئی لوازم عقل و نقل دونوں کے خلاف پڑتے ہیں۔
علمی مباحث میں ہمیں ہمیشہ یہ اصول سامنے رکھنا چاہیے کہ ایک دوسرے پر احترام، اخلاص اور حق کی تلاش کا جذبہ غالب رہے، تاکہ امت کے مابین اختلافِ رائے، اختلافِ دل نہ بننے پائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور عقائد میں افراط و تفریط سے محفوظ رکھے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ سیدنا محمد و آلہ و صحبہ وسلم تسلیماً کثیراً
حوالہ جات اور مصادر (اشارتاً)
- تفسیر ابن جریر، تفسیر روح المعانی (علامہ آلوسیؒ)
- کتاب الروح و قصیدہ نونیہ (حافظ ابن القیمؒ)
- فتاویٰ رضویہ، مکاتیب (مولانا حسین احمد مدنیؒ)، آبِ حیات (مولانا قاسم نانوتویؒ)
- سنن ابی داود، ابن ماجہ، نسائی، مشکوۃ المصابیح، مجمع الزوائد (ہیثمیؒ)
- تاریخ ابن خلدون، البدایہ والنہایہ (ابن کثیرؒ) وغیرہ