حماد بن سلمہ کا قصہ اہل بدعت کے ساتھ :
ابراہیم بن عبد الرحمٰن بن مہدی نے کہا:
حماد بن سلمہ پہلے اس قسم کی روایات نہیں جانتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک بار آپ عبادان کی طرف نکلے پس جب واپس آئے تو انھیں روایت کرنے لگے، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ شیطان نے دریا سے نکل کر ان پر یہ روایات القاء کر دی ہیں۔ (یہ باطل روایت ہے۔)
تخریج:
ابن عدی نے الکامل ( ج ۲ ص ۶۷۶) میں ’’ابن حماد : ثنا أبو عبدالله محمد بن شجاع بن الثلجي‘‘ کی سند سے بہ روایت بیان کی ہے۔
جرح :
اس کی سند ساقط ہے اس میں محمدبن شجاع ابن البغدادی راوی ہے اور یہ کذاب ہے۔ ابھی ابن عدی نے فرمایا:
ابوعبداللہ ابن الثلجی کذاب ہے۔ احادیث گھڑتا تھا اور ان کفریہ روایات کو اہل حدیث کی کتابوں میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا اور یہ روایت بھی اس کی گھڑی ہوئی روایات میں سے ہے۔ زکریا الساجی نے فرمایا:
محمد بن شجاع کذاب ہے ۔ حدیث کے ابطال ورائے کی نصرت کے لئے اس نے یہ حیلہ کیا۔ (محدثین سے متعلق جھوٹی باتیں اور ان سے جھوٹی روایات گھڑ دیں)
دیکھئے میزان الاعتدال ، ( ج ۳ ص ۵۷۸)
ذہبی نے فرمایا:
یہ ابن الثلجی حماد اور ان جیسے دیگر محدثین کے متعلق سچا نہیں ہے۔ اس نے بہتان لگایا ہے، ہم اللہ سے سلامتی کے طلبگار ہیں۔
الشیخ المعلمی نے التنکیل (ج ۱ص ۲۵۲) میں اس (موضوع) حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
اور حماد بن سلمہ سلف صالحین میں سے ایک بڑے بزرگ تھے، ان کے متعلق امام اہلِ سنت امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
جب آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ حماد بن سلمہ پر طعن کر رہا ہے تو آپ اس کے اسلام میں شک کریں اس لئے کہ حماد اہل بدعت پر بڑے ہی سخت تھے۔
تنبیہ:
یہ قول امام احمد سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
(سیر اعلام النبلاء ج ۷ ص ۴۵۰ )
جب حماد بن سلمہ اس مقام پر تھے تو اہل بدعت نے ان کے خلاف ایسی باتیں گھڑیں تا کہ لوگوں کو ان سے دور کر دیں ایک خاص وجہ سے وہ یہ کہ وہ خاص طور پر صفات الہیٰ سے متعلق احادیث ( یاد رکھتے اور ) روایت کرتے تھے۔
حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات ( ج ۲ ص ۲۱۷) میں فرمایا کہ ان کے عرصہ حیات میں کوئی ان کی مذمت نہ کرتا سوائے قدری اور جہمی بدعتیوں کے ، کیونکہ وہ ان صحیح احادیث کو بیان فرماتے تھے جن کا معتزلہ (اپنی بدعات کے خلاف ہونے کی وجہ سے) انکار کرتے تھے۔