حقیقت اور تفصیل کا فرق
تحریر: عظیم الرحمان عثمانی

سوال

سامنے کھڑی گاڑی کس نے بنائی؟

جواب

گاڑی بنانے کا عمل تکنیکی طور پر یوں ہوا کہ پہلے انجن تیار کیا گیا، پھر اس پر گاڑی کی باڈی لگائی گئی، پھر پہیئے اور شیشے نصب کیے گئے، اور آخر میں گاڑی کی تزئین و آرائش کی گئی۔

آپ کے اس جواب کو سننے کے بعد مجھے حیرانی ہوگی کہ آپ نے اس سادہ سے سوال کا سیدھا جواب کیوں نہیں دیا؟ سوال صرف یہ تھا کہ گاڑی کس نے بنائی؟ آپ نے کہہ دینا تھا کہ ’’ٹویوٹا نے‘‘، اور بات ختم ہوجاتی۔ اس غیر ضروری تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں تھی کہ گاڑی "کیسے” بنی اور اس میں کیا کیا اجزاء استعمال ہوئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سوال کا اصل جواب نہیں دیا گیا۔

اسی طرح، اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تاج محل کس نے بنایا؟ اور میں تفصیل سے بتانے لگوں کہ پہلے اینٹیں رکھی گئیں، پھر کھڑکیاں اور دروازے بنے، اور آخر میں رنگ و روغن کیا گیا، تو یقیناً آپ کو میرے اس غیر ضروری جواب پر مایوسی ہوگی۔ سوال صرف یہ تھا کہ تاج محل کس نے بنوایا، جس کا سیدھا جواب ہونا چاہیے تھا کہ ’’شاہ جہاں نے‘‘۔ اس غیر ضروری وضاحت سے سوال وہیں کا وہیں رہ گیا۔

ملحدین کا رویہ

ملحدین کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ انسان کو کس نے پیدا کیا؟ وہ فوراً ارتقاء کے نظریے سمیت کئی خیالات پیش کردیں گے کہ تخلیق کن مراحل سے گزری۔ ان سے کوئی یہ سمجھائے کہ سوال تخلیق کے مراحل کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ انسان کو "کس” نے پیدا کیا۔

اسی طرح اگر آپ ان سے پوچھیں کہ اس کائنات کو کس نے پیدا کیا؟ تو وہ بگ بینگ جیسے نظریات بیان کرنے لگیں گے۔ کوئی انہیں بتائے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ کائنات "کیسے” بنی، بلکہ سوال یہ ہے کہ اس حیرت انگیز کائنات کو "کس” نے پیدا کیا؟ یہ سادہ سی بات ہے کہ جب ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ "کس” نے بنایا؟ تو آپ اس سوال کا جواب "کیسے” بنا؟ سے نہیں دے سکتے۔

سائنس کی حدود

سائنس مادی علوم کی حدود میں رہ کر کام کرتی ہے اور اس کا دائرہ محدود ہے۔ جب بات یہ ہو کہ مادہ کہاں سے آیا؟ یا توانائی کا آغاز کیسے ہوا؟ تو سائنس ان سوالات کے سامنے خاموش ہو جاتی ہے۔ سائنس کا کام یہ ہے کہ وہ بتائے کہ چیزیں "کیسے” ہوتی ہیں، لیکن "کیوں” اور "کس” نے انہیں بنایا، یہ سوالات اس کی حدود سے باہر ہیں۔ ان سوالات کے جوابات کے لیے وحی کی جانب رجوع کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ

لہذا، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر علم اور فن کی اپنی حدود ہوتی ہیں اور ان سے تجاوز کرنے سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی حدود کو پہچاننا اور اپنے علم کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہی عقلمندی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے