حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اونٹ کی خریداری کا قصہ اور علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی اونٹ لے کر آیا تاکہ انہیں فروخت کر سکے۔ عمر ان کا بھاؤ تاؤ کرنے گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ ایک ایک اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگے، اور اسے پیر مارتے تاکہ اونٹ کھڑا ہو اور عمر رضی اللہ عنہ اس کا دل دیکھ سکیں۔ اس پر وہ شخص بولا: تیرا باپ نہ ہو میرے اونٹوں سے علیحدہ ہو جا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس پر بھی باز نہ آئے تو وہ شخص بولا:، میرا خیال ہے تو بہت برا آدمی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کام سے فارغ ہو گئے تو اس سے اونٹ خریدا اور کہنے لگے کہ اے کھینچ کر لیا اور اس کی قیمت لے لے۔ اس اعرابی نے کہا: اچھا میں اس کا کجاوہ اور لگام اتار دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے جب اونٹ خریدا تھا تو یہ چیزیں اس پر موجود تھیں۔ اس پر اعرابی بولا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو بہت برا آدمی ہے۔
یہ دونوں باہم جھگڑ ہی رہے تھے۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ والے سے کہا کیا تو اس پر راضی ہے کہ یہ شخص میرے اور تیرے درمیان فیصلہ کر دے۔ اونٹ والے نے اقرار کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سارا قصہ بیان کیا۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔
اے امیر المؤمنین ! اگر اونٹ خریدتے وقت آپ نے کجاوے اور لگام کی شرط لگائی تھی۔ تب تو یہ آپ کی ہیں ورنہ اونٹ کا مالک اپنے دام میں اس قیمت پر اضافہ کر سکتا ہے۔ [ميزان الاعتدال: 316/2]
حفص بن اسلم الاصفر:
اس کا راوی حفص بن اسلم الاصفر ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ عجیب عجیب کہانیاں نقل کرتا ہے۔ بخاری کا بھی یہی بیان ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں۔ یہ بے اصل روایات نقل کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ کہ اس نے یہ روایت خود وضع کی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 3162۔ المغني: 179/1۔ الجرح والتعديل: 169/3 – الضعفاء والمتروكين: 220/1]
یہ سارا قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔