ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تخلیق سے چالیس ہزار سال قبل نور کی ایک چھڑی پیدا فرمائی اس کے آدھے حصے سے مجھے پیدا کیا اور آدھے سے علی رضی اللہ عنہ کو۔ [ميزان الاعتدال : ج 7، ص360۔ رقم : 10176۔ وذكره الحافظ فى اللسان]
اس کہانی کا راوی ابو ذکوان ہے۔ جو قطعا مجہول ہے۔ ذہہبی کا بیان ہے کہ یہ روایت باطل ہے اس نے یہ روایت احمد بن عمر و سے نقل کی ہے، یہ کونسا احمد بن عمرو ہے اس کا کچھ اتنا پتہ معلوم نہیں ان احمد بن عمرو نے اپنے ہم نام احمد بن عبد اللہ سے حدیث نقل کی ہے۔ اتفاق سے احمد بن عبد اللہ نامی سینکڑوں افراد ہیں۔ احمد بن عبد اللہ نے یہ داستان عبد اللہ بن عمرو سے نقل کی ہے۔ اور عبید اللہ بن عمرو کوئی شخص نہیں۔ دراصل یہ سب افسانوی ہیرو ہیں۔ جن کا وجود کوئی ضروری نہیں۔ عبید اللہ نے یہ روایت عبد الکریم الجزری سے نقل کیا ہے اور یہ منکرات بیان کرنے میں مشہور ہے۔ عبد الکریم نے اسے عکرمہ سے نقل کیا ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا غلام ہے اور مشہور خارجی ہے۔ اگر واقعا اس نے کوئی ایسی روایت سنی اور بیان کی ہوتی تو شاید یہاں تک نوبت نہ آتی۔
ہاں سوچنے اور سمجھے کی بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کب اور کس شئے سے پیدا ہوئے کبھی وہ زمین کی مٹی سے پیدا ہوتے ہیں کبھی جنت کی مٹی سے کبھی درخت سے اور کبھی نور سے کبھی ان کے ساتھ پیدائش میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوتے ہیں۔ کبھی ان کی بیوی اور صاجزادے بھی شریک ہوتے ہیں اور کبھی متبعین بھی آخر وہ ہیں کیا شئے آج تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کوئی ہے تو ہماری رہنمائی کرے۔