جناب باقر کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ایک چادر اوڑھائی۔ اس چادر کو ”سحاب“ کہا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سحاب (بادل) پہن کر تشریف لائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا یہ علی سحاب میں آرہے ہیں۔ جعفر کا بیان ہے کہ میرے والد باقر نے فرمایا ان لوگوں نے اس میں تحریف کر ڈالی اور یہ کہنا شروع کیا کہ علی رضی اللہ عنہ بادلوں میں آرہے ہیں۔ [ميزان الاعتدال : ج 6، ص 408]
شیعوں میں سے فرقہ رجعیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ زندہ بادلوں میں اٹھا لیے گئے ہیں۔ یہ بجلی کی کڑک ان کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز ہے اور یہ بجلی ان کے کوڑے کی چمک ہے۔ اسے فرقہ رجیحہ کہتے تھے۔ جناب باقر نے اس کی خوب عمدہ تاویل پیش کی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب باقر کو یہ چادر اڑھانے کا قصہ کیسے معلوم ہوا کیونکہ جناب باقر بقول ملا مجلسی 57ھ میں پیدا ہوئے اور علی بیمار خود کمسن بچے تھے ان کے یہ صاجزادے میدان کربلا میں چار سال کے تھے۔ انہوں نے یہ واقعہ کس سے سنا محدثین اہل سنت کی نظر میں یہ روایت مرسل ہے اور مرسل روایت قابل قبول نہیں ہوتی۔
ہاں فرقہ شیعہ کے ہاں اس سے زیادہ مقبول کوئی روایت نہیں ہوتی کیونکہ اسے ایک امام روایت کر رہا ہے۔ ان سے ان کے صاجزادے جعفر نقل کر رہے ہیں۔ جن کی ذات پر ہم پہلے بحث کر چکے ہیں جعفر سے نقل کرنے والا مسعدۃ بن السیع البابلی ہے۔
مسعدۃ :
ابن عدی کا بیان ہے یہ تباہ کن ہے۔ ابو داؤد کا قول ہے کذاب ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں ایک زمانہ گزر گیا کہ ہم نے اس کی روایات پھاڑ کر پھینک دیں۔
قتیبہ کا بیان ہے کہ میں نے اسے دیکھا ہے لیکن میں نے اس سے روایات سننا پسند نہیں کیا۔
[ميزان الاعتدال : 408/6 المغني 654/2 الضعفاء والمتروكين 116/3 الضعفاء الكبير 245/4]
دارقطنی لکھتے ہیں یہ مسعدۃ بن السیع الباہلی بصرہ کا باشندہ ہے۔ جعفر ابن جریج اور محمد بن عمرو سے روایات نقل کرتا ہے۔ متروک ہے۔
[كتاب الضعفا والمتروكين : 159]