حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے حقائق

صلح حدیبیہ اور صحابہ کرام کا طرز عمل

صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور ذبح کریں، لیکن صحابہ کرام نے ابتدا میں اس حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کی اس تاخیر کی وجہ صلح کی شرائط سے پیدا ہونے والا غم اور اضطراب تھا، کیونکہ یہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے مفادات کے خلاف دکھائی دے رہی تھیں۔ تاہم، بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو "فتح مبین” قرار دیا، تو ان کے دل مطمئن ہوگئے اور وہ خوشی محسوس کرنے لگے۔

اہم سبق

  • صحابہ کرام کا یہ طرز عمل اس بات کی دلیل ہے کہ معقول عذر کی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر عنداللہ گناہ نہیں۔
  • اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں عذر کا یہ معاملہ قابل معافی ہے، تو خلفائے راشدین کے کسی حکم کی عدم تعمیل بھی کسی معقول عذر کے ساتھ جرم نہیں ہوسکتی۔

نوٹ: رسول کی رسالت کا انکار یا آپ کے حکم کو سرے سے نہ ماننا بالکل الگ بات ہے، لیکن معقول عذر کی بنیاد پر تاخیر ایک مختلف معاملہ ہے۔

حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی خلافت

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ہمیشہ متفق علیہ رہی، اور ان کی خلافت میں کوئی شبہ یا اختلاف نہیں ہوا۔
  • کچھ صحابہ نے معقول عذر کی بنیاد پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت میں تاخیر کی، کیونکہ ان کی نظر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے فوری قصاص لینا زیادہ اہم تھا۔

امارتِ معاویہ رضی اللہ عنہ

  • حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح سے پہلے کبھی اپنی خلافت کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ ان دنوں صرف امیر اور حاکم تھے۔
  • بعض کتب میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو خلافت سمجھ لیا گیا، جو حقیقت کے خلاف ہے۔ اگر وہ خلافت کا دعویٰ کرتے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ناجائز قرار دیتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

صلح کے بعد

  • حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت اور امارت یکجا ہوگئیں، اور تمام صحابہ کرام نے ان کی بیعت پر اتفاق کر لیا۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ یہ سردار ہیں اور مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کروائیں گے۔

خلافت کے حوالے سے روافض اور اہل حق کے رویے

روافض کا طرز عمل

  • روافض نے پہلے تین خلفائے راشدین (حضرت ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم) کے بارے میں افسوسناک تفریط سے کام لیا اور انہیں ظالم اور غاصب قرار دیا۔
  • حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں افراط سے کام لیتے ہوئے انہیں بلا فصل خلیفہ قرار دے دیا۔

اہل حق کا ردعمل

  • بعض اہل حق روافض کے تفریط کا رد کرتے ہوئے غیر شعوری طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کچھ حد تک تفریط کا شکار ہوگئے۔
  • ان کا کہنا ہے کہ آیت استخلاف کے تین وعدوں (استخلاف فی الارض، تمکین دین، اور امن) میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں امن کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔
  • جواب: ایسا ماننا درست نہیں، کیونکہ آیت استخلاف کا تعلق کفار کی طرف سے خوف کے خاتمے سے ہے، نہ کہ داخلی خانہ جنگی سے۔

خلافت کے حوالے سے اصل حقیقت

  • چاروں خلفائے راشدین (حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم) آیت استخلاف کے مطابق کامل طور پر موعود لہم تھے۔
  • حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی کفار کے خوف کا خاتمہ ہو چکا تھا، لہذا تمام خلفاء اس آیت کے مصداق تھے۔

نتیجہ

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت متفق علیہ اور برحق تھی، اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
  • حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح حسن رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت سنبھالی، اور تمام صحابہ نے ان کی خلافت پر اتفاق کیا۔
  • خلفائے راشدین کے بارے میں افراط و تفریط سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ چاروں خلفاء آیت استخلاف کے مطابق اللہ کے وعدوں کے مستحق ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1