حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا دریائے دجلہ عبور کا معجزہ
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

ابن رفیل سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نہر شیر میں پڑاؤ کیا یہ دریائے دجلہ سے ادھر کا شہر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کشتیاں طلب کیں تاکہ دریا عبور کر کے دوسری طرف والے شہر (مدائن) میں ا پنا لشکر لے جائیں مگر وہاں کچھ نہ ملا۔ ایرانیوں نے تمام کشتیاں قبضے میں کر لی تھیں۔
تو اہل اسلام نہر شیر میں ماہ صفر کے چند دن اقامت پذیر ہے۔ وہ دریا عبور کرنا چاہتے تھے مگر مسلمانوں کی جانیں تلف ہونے کا خطرہ اس سے مانع تھا۔ تا آنکہ ان کے پاس کچھ عجمی کافرآئے، انہوں نے بتایا کہ دریا میں فلاں جگہ گھسنے کی جگہ ہے (تھوڑا پانی ہے) جہاں سے وہ وادی میں اتر سکتے ہیں۔ مگر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور تردد میں پڑ گئے پھر اچانک دریا میں طوفان آ گیا۔
ایک روز آپ رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑے دریا میں گھس گئے ہیں اور اسے عبور کر لیا ہے اور چڑھے ہوئے دریا کے باوجود ایک عظیم معاملہ ظاہر کر دکھایا ہے، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس خواب کو عملی شکل دینے کی ٹھان لی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے لشکر کو جمع کیا اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا : تمھارا دشمن اس دریا کے سبب تم سے محفوظ ہے۔ تم دشمنوں تک نہیں پہنچ سکتے مگر وہ جب چاہیں تم تک پہنچ سکتے ہیں وہ تمہیں پکڑ کر کشتیوں میں بٹھا لیں گے۔ جبکہ پیچھے کی طرف سے کسی حملہ آور کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اس دریا عبور کر کے دشمن تک پہنچنے کا صمیم عزم کر لیا ہے۔ تو سب لشکریوں نے کہا: اللہ آپ کو اور ہمیں ہدایت پر گامزن رکھے، آپ اپنا ارادہ پورا کریں۔
تو آپ نے لوگوں کو دریا عبور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا : تم میں سے کون ہے جو لشکر کی حفاظت کے لیے پہل کرتا ہے تاکہ دوسرے بھی اس کے پیچھے چل پڑیں اور ان کے لیے اس راہ پر نکلنے سے کوئی رکاوٹ نہ رہے تو عاصم بن عمر لبیک کہتے ہوئے سامنے آگئے ان کے ساتھ اہل نجدات کے چھ سو آدمی بھی نکل آئے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عاصم بن عمر کو ان کا امیر بنایا عاصم انہیں لے کر دجلہ کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اپنے لشکر کی حفاظت کے لیے کون میرے ساتھ دریا میں کودنے کے لیے تیار ہے ؟ تو ان میں سے ستر آدمی تیار ہوئے۔ انہوں نے دو صفیں بنا دیں کچھ گھوڑوں پر سوار تھے اور کچھ گھوڑیوں پر، یہ اس لیے کیا تاکہ گھوڑے سے آسانی سے ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑیں۔ پھر وہ دریا میں داخل ہو گئے۔ پھر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ باقی لشکر عاصم رضی اللہ عنہ کی پیروی نہیں کر رہا تو آپ نے تمام لشکر کو (بیک وقت) دریا میں کود پڑنے کا آرڈر دے دیا اور فرمایا : یہ پڑھو :
«نستعين بالله و نتوكل عليه وحسبنا الله و نعم الوكيل ولا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم»
”ہم اللہ سے مدد چاہتے ہیں اسی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں کافی ہے وہ سب سے بہتر ذمہ دار ہے اور خدائے بلند و عظیم کے سوا کسی کی پناہ ہے نہ طاقت۔“
چنانچہ تمام لشکر آگے پیچھے چلتا ہوا دریا کے وسط پر سوار ہو گیا۔ دجلہ طغیانی کے سبب ان دنوں جھاگ اڑا رہا تھا اور پانی کا سیاہ رنگ تھا مگر اہل لشکر باتیں کرتے ہوئے تیرتے جا رہے تھے، وہ باہم گفتگو کرنے کے لئے ایک دوسرے سے قریب ہو گئے تھے جیسے زمین پر سفر کرتے ہوئے ان کا، طریقہ کار ہوتا تھا۔
اہل فارس یہ منظر دیکھ کر بوکھلا اٹھے یہ ماجرا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ انھوں نے فوراً اپنا سامان اکٹھا کیا اور شہر خالی کر گئے۔ اسلامی لشکر صفر12ھ میں وہاں داخل ہوا اور کسریٰ کے محلات میں سے باقی ماندہ تین کروڑ درہم انھیں ملا۔ علاوہ ازیں شاہ فارس شیرویہ اور اس کے بعد والوں نے جو کچھ جمع کر رکھا تھا سب کچھ ان کے ہاتھ لگا۔
ہمیں شعیب نے یوسف سے اور انھوں نے ایک راوی کے ذریعے ابو عثمان نہدی سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے دریا عبور کرنے کے لیے لوگوں کو دعا سکھلانے کا واقعہ روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سواروں، پیادوں اور جانوروں سے دجلہ کا چہرہ ڈھانپ دیا اور دریا سے پار کھڑا کوئی شخص دجلہ کا پانی دیکھ نہ پاتا تھا۔ گھوڑوں نے ہمیں دوسرے کنارے پر جا اتارا۔ گھوڑے گردن کے بال جھٹکتے ہوئے ہنہنانے لگے، دشمن فوج نے جب یہ دیکھا تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے۔
ابوبکر بن حفص بن عمر سے رویات ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو پانی میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ساتھ لے جا رہے تھے گھوڑے لوگوں کو لے کر پانی پر تیرنے لگے حضرت سعد رضی اللہ عنہ ایسے میں کہہ رہے تھے :
«حسبنا الله ونعم الوكيل، والله لينصرن الله وليه وليظهرن دينه وليهز من عدوه إن لم يكن فى الجيش بغى أو ذنوب تغلب على الحسنات»
”ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی سب سے بہتر کار ساز ہے۔ اللہ کی قسم ! الله تعالیٰ اپنے دوست کی مدد کرتا ہے۔ اپنے دین کو غالب رکھتا ہے اور اپنے دشمن کو شکست دیتا ہے۔“
اگر لشکر میں بدی اور گناہ نہ ہوں تو یہ نیکیوں پر حکمران بن جائیں۔
سلمان فاری رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا : اسلام واقعتاً اسی عظمت کے لائق ہے۔ اللہ کی قسم ! اہل اسلام کے لیے سمندر بھی ایسے ہی تابع کر دیے گئے ہیں جیسے خشکی اور اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں سلمان کی جان ہے۔ یہ لشکر جس طرح دریا میں اترا تھا اسی طرح گروہ در گروہ باہر نکل جائے گا۔
چنانچه دریا کا چہرہ چھپ گیا اور کنارے سے دریا کا پانی نظر نہ آ رہا تھا اہل لشکر خشکی کی نسبت دریا میں زیادہ باتیں کر رہے تھے تا آنکہ وہ پار نکل گئے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کسی کا کچھ نقصان نہ ہوا اور نہ ہی کوئی پانی میں غرق ہوا۔
سیف نے ابوعمر وثاب سے اور انھوں نے ابوعثمان نہدی سے روایت کیا ہے کہ سب اہل لشکر سلامتی سے نکل گئے۔ البتہ بنی بارق کا ایک آدمی جسے عرقدہ کہتے تھے اپنے سرخ و زرد گھوڑے کی پشت سے پھسل گیا۔ آج بھی وہ منظر میرے سامنے ہے جب اس کا گھوڑا اپنے بال جھٹک رہا تھا اور آدمی پانی میں تیرنے لگا۔ قعقاع بن عمرو نے اپنے گھوڑے کی لگام اس کی طرف پھیری۔ اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچ کر کنارے پر پہنچا دیا۔
ایک آدمی کا پیالہ گم ہوگیا دریا نے واپس کر دیا :
کہتے ہیں پانی میں لشکر کی کوئی چیز نہ گری البتہ ایک آدمی کا پیالہ جس کی رس پرانی ہو چکی تھی جو ٹوٹ گئی اور اسے پانی بہا لے گیا۔ جو شخص پیالے والے آدمی کے ساتھ دریا پر تیر رہا تھا اس نے اسے عار دلاتے ہوئے کہا، قدرت کا فیصلہ پیالے کو آ پہنچا اور وہ ضائع ہو گیا (اب افسوس کس کا؟) اس نے کہا : اللہ کی قسم! مجھے تو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام لشکر میں سے میرا پیالہ مجھے سے نہ چھینے گا۔
چنانچہ جب لوگ کنارے پر اترے تو ایک آدمی جو سب سے پہلے دریا میں اترنے والوں میں سے تھا وہی پیالہ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا کیونکہ ہواؤں اور پانی کی لہروں نے اسے دھکیلتے ہوئے کنارے پر لا پھینکا تھا۔ جسے اس آدمی نے اپنے نیزے سے پکڑ لیا اور لشکر میں لے آیا۔ چنانچہ پیالے والے نے اسے پہچان کر لے لیا۔
سیف نے قاسم بن ولید سے اور انھوں نے عمیر صائدی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے لشکر کو لے کر دجلہ میں داخل ہو گئے۔ جبکہ ان کے ساتھ ساتھ چلنے والے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تھے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے (بے اختیار) کہا «ذالك تقدير العزيز العليم،» ”یہ غالب علم والے خدا کی قدرت کے سوا کیا ہے؟“
حالت یہ تھی کہ پانی لشکر کو لے کر چل رہا تھا اور گھوڑے بدستور سیدھے کھڑے تھے۔ جب وہ کھڑے کھڑے تھک جاتے تو پانی میں سے ر یت کی ڈھلوان کی نمودار ہو جاتی اور وہ اس پر یوں آرام کر لیتے جیسے خشکی پر کرتے ہیں۔
مدائن میں اس سے بڑھ کر اور کون سی عجیب تر چیز ہو سکتی تھی اسی لیے یوم مدائن کو یوم «جراثيم» کہتے ہیں۔ کیونکہ جب بھی کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا اس کے لیے ایک «جرثومه» (ریت کا تودہ) نمودار ہو جاتا جس پر وہ آرام کر لیتا۔
سیف نے اسماعیل بن ابوخالد کے واسطہ سے قیس بن ابوحازم سے روایت کی ہے کہتے ہیں جب ہم دجلہ میں داخل ہوئے تو وہ کناروں تک بھرا ہوا تھا مگر جہاں زیادہ گہرا پانی تھا وہاں یہ حالت تھی کہ گھڑ سوار کھڑا رہتا اور پانی اس کی زین کی رسی کو پہنچ نہ پاتا تھا۔
سیف نے اعمش کے واسطہ سے حبیب بن صبہان ابی مالک سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں یوم مدائن میں مسلمان جب دجال کو عبور کر رہے تھے تو اہل مدائن نے انھیں دیکھ کر فارسی میں یہ کہنا شروع کر دیا ”دیوانه آمد“ پاگل آ گئے اور وہ آپس میں کہنے لگے : اللہ کی قسم ! تم انسانوں سے جنگ نہیں کر رہے تمھارا مقابلہ جنوں سے ہے اور وہ بھاگ اٹھے۔

تحقیق الحدیث :

اسناده موضوع۔

اس کی سند من گھڑت ہے۔
[دلائل النبوہ ص : 525 مترجم۔]
اس قصہ کا مرکزی راوی سیف بن عمرالضبی تمیمی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک کذاب ہے۔
اس نے اس واقعہ کو گھڑا ہے اور اس کی مختلف سندیں تیار کی ہیں۔
ابوداؤد کہتے ہیں : «ليس بشيء »، یہ کچھ نہیں۔
ابوحاتم کہتے ہیں : متروک ہے۔
ابن حباب کہتے ہیں : متہم بالزندقہ ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں : ان کی حدیث منکر ہے۔
مزید دیکھیں : [تهذيب الكمال 566/1، تهذيب التهذيب 4/ 295، تقريب التهذيب 344/1، خلاصه تهذيب الكمال436/1، انكاشف 416/1، الجرح والتعديل 1198/4، الوافي بالوفيات 66/16، أبوزرعه الوازي 320، المعغرفة ليعقوب 29/3،58، الضعفاء والمتروكين للنسائي ترجمه 256، المجروحين لابن حنان1/ 345، ضعفاء الدار قطني ترجمه 283، المغني اترجمه 2716 الكشف الحثيث 335]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے