ابن اسحاق نے کہا مجھ سے بنی اسلم کے ایک شخص نے جو بڑا یاد رکھنے والا تھا بیان کیا کہ کوہ صفا کے قریب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ابوجہل گزرا تو اس نے آپ کو تکلیف دی اور سخت سست کہا اور آپ کے دین کی عیب جوئی اور آپ کے معاملے کو کمزور بتانے کا کچھ مواقع پالیا۔ جس کو آپ ناپسند فرماتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور عبد الله بن جدعان بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرة کی ایک لونڈی جو اپنے گھر میں تھی اس کی یہ باتیں سن رہی تھی۔ اس کے بعد آپ اس کے پاس سے لوٹے تو آپ نے قریش کی مجلس کا قصدہ فرمایا جو کعبہ اللہ کے پاس تھی اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے تھوڑی ہی دیر بعد حمزه بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کمان گلے میں ڈالے شکار سے واپس ہوتے ہوئے وہاں آگئے۔ وہ شکاری کتے تیر سے شکار کیا کرتے۔ اور اکثر شکار کے لئے نکل جایا کرتے تھے اور جب بھی وہ شکار سے واپس ہوتے تو اپنے گھر والوں کے پاس نہ جاتے۔ جب تک کہ کعبہ اللہ کا طواف نہ کر لیتے اور جب طواف کر چکتے تو قریش کی مجلس میں ٹھہرتے اور سلام کرتے۔ اور ان سے بات چیت کئے بغیر نہ جاتے۔ اور وہ قریش میں اعزاز رکھنے والے جواں مرد اور سخت طبیعت تھے۔ جب وہ اس لونڈی کے پاس سے گزرے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس ہو چکے تھے۔ تو اس لونڈی نے حمزة رضی اللہ عنہ سے کہا۔ اے ابوعمارة ! کاش آپ اس آفت کو دیکھتے۔ جو آپ کے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابو الحکم بن ہشام کی جانب سے آئی۔ اس نے انہیں یہاں بیٹھا ہوا پایا تو انہیں ایذا پائی اور گالیاں دیں۔ اور جو باتیں انہیں ناپسند تھیں ان کی انتہا کر دی اور پھر چلتا بنا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات بھی نہ کی۔ چونکہ الله تعالیٰ آپ کو با اعزاز رکھنا چاہتا تھا۔ حمزہ کو غصے نے برانگیختہ کر دیا اور وہ وہاں سے تیزی سے نکلے اور کسی کے پاس نہ رکے کہ ابوجہل کے لئے تیار ہو جائیں۔ اور جب اس سے مقابلہ ہو تو اس سے چمٹ جائیں۔ پھر جب مسجد میں داخل ہوئے تو اس کو دیکھا کہ لوگوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ تو یہ اسی کی طرف چلے۔ اور جب اس کے سر پر گئے تو کمان اٹھائی اور رسید کی۔ اور اس کا سر سخت زخمی کر دیا اور کہا کیا تو انہیں گالیاں دیتا ہے۔ لے میں بھی انہیں کے دین پر ہوں۔ میں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو وہی برتاؤ مجھ سے بھی کر۔ پس بنی مخزوم کے لوگ حمزة کی جانب اٹھ کھڑے ہوئے کہ ابوجہل کی امداد کریں۔ ابوجہل نے کہا۔ ابو عمارۃ کو جانے دو کیونکہ واللہ میں نے بھی ان کے بھتیجے کو بری بری گالیاں دی ہیں۔ آخر حمزه رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام مکمل کر لیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی زبان سے بھی کی۔
تحقیق الحدیث :
أسناده ضعیف۔
مستدرك حاكم (193/3) حديث رقم (4878) مختصر المستدرك (1740/4) معجم كبير لطبرانی (154،153/3) السيرة النبويه ابن هشام مع الروض الانف، (44/2) أنظر الكامل (601/1) و المنتظم لا بن جوذی (384/2) والطبري في تاريخ (549/1) یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ نا قابل حجت ہے۔