سورہ مائدہ کی آیت اور اس کی تعبیر
سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فتنہ ارتداد کی خبر دی ہے، لیکن یہ فتنہ مہاجرین، انصار یا فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے مولفتہ القلوب سے متعلق نہیں تھا۔ بلکہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ کیا۔ قرآن کریم نے ان مرتدین کے غلبے کی نہیں، بلکہ ان کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔ چنانچہ آیت میں فرمایا گیا:
"اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اللہ سے محبت کرتے ہوں گے اور اللہ ان سے محبت کرتا ہوگا، وہ مومنین پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے وہ عطا فرماتا ہے۔”
فتنہ ارتداد کا ظہور اور اس کی سرکوبی
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فوراً بعد فتنہ ارتداد کا ظہور ہوا۔ زکٰوۃ کے منکرین اور جھوٹے مدعیان نبوت جیسے اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور طلحہ اسدی نے سر اٹھایا۔
- اسود عنسی کو رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک فرد فیروز نے قتل کر دیا تھا، جس کی اطلاع بذریعہ وحی رسول اللہ ﷺ کو دی گئی تھی۔
- مسیلمہ کذاب کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شکست دی گئی، اور اسے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔
- طلحہ اسدی کے فتنے کا بھی خاتمہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوا، تاہم وہ میدان جنگ سے بھاگ نکلا اور بعد میں توبہ کر لی۔
صحابہ کرام اور فتنہ ارتداد کی سرکوبی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہ ارتداد کے خلاف سخت موقف اپنایا اور کسی قسم کی نرمی کو برداشت نہیں کیا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں کو سراہا۔ جب یہ فتنہ رونما ہوا تو واضح ہو گیا کہ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت میں جن افراد کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام ہیں۔ یہ اللہ کے محبوب بندے تھے اور اللہ ان کا محبوب تھا۔
جنگ جمل اور حضرت علی رضی اللہ عنہ
جنگ جمل کے بارے میں مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ یہ فتنہ پرور لوگوں کی شرارت کی وجہ سے ہوئی، ورنہ فریقین میں صلح ہو چکی تھی۔ جنگ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عزت و تکریم کی اور ان کے خلاف بدکلامی کرنے والوں کو سزا دی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے ساتھ جنگ نہروان میں شرکت کی، لیکن ان کو کافر یا مرتد قرار نہیں دیا۔ ان کے خلاف جنگ مجبوری میں کی گئی کیونکہ وہ ناحق قتل و غارت سے باز نہیں آ رہے تھے۔
حدیث حوض اور مرتدین
صحیح بخاری میں حدیث حوض کے بارے میں بیان ہوا ہے:
"یہ مرتدین وہی لوگ ہیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مرتد ہو گئے تھے، اور ان کے خلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا۔” (فتح الباری شرح صحیح بخاری)
تفسیر شیعہ علما کی روشنی میں
مشہور شیعہ مفسر علامہ کاشانی نے بھی اپنی تفسیر "منہج الصادقین” میں ذکر کیا ہے کہ فتنہ ارتداد کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے آخری ایام اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے ہے۔ ان کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
- "اسلام میں تیرہ قبائل مرتد ہوئے، جن میں سے تین رسول اکرم ﷺ کے آخری زمانے میں تھے۔”
- "حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مرتدین کے خلاف روانہ کیا۔”
- "یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مرتدین سے لڑے۔”
خلاصہ
یہ تمام وضاحتیں ظاہر کرتی ہیں کہ سورہ مائدہ کی آیت ارتداد اور حدیث حوض کا اطلاق مہاجرین، انصار یا مولفتہ القلوب صحابہ کرام پر نہیں ہوتا، بلکہ ان بدوی مرتدین پر ہوتا ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد دین سے پھر جانے کی کوشش کی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے ان کے خلاف جہاد کر کے اسلام کو محفوظ کیا۔