حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آمنہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا قصہ بیان کرتیں تھیں کہ میں حیرت میں تھی کہ تین آدمی دکھائی دیئے۔ جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتاب تھا جس سے مشک کی خوشبو آ رہی تھی دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا حشف تھا، جس کے چارگوشے تھے۔ اور ہر گوشہ میں سپید موتی رکھا تھا، ایک آواز آئی۔ اے اللہ حبیب یہ پوری دنیا یورپ، پچھم، خشکی و تری سب مجسم ہو کر آئی ہے، اس کے جس گوشے کو دل چاہے مٹھی میں لے لیجئے، پیچھے آمنہ کہتی ہیں کہ میں نے گھوم کر دیکھا۔ کہ بچہ کہاں ہاتھ رکھتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس نے بیچ میں ہاتھ رکھا تو کہنے والے کی آواز سنی کہ رب کعبہ کی قسم محمد نے کعبہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہاں یہ کعبہ اس کا قبلہ اور مسکن رہے گا۔ تیسرے کے ہاتھ میں سپید حریر تھا، اس نے اس کو کھولا تو اس میں سے ایک انگوٹھی نکلی جس کو دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت کرتی تھیں، پھر وہ میرے پاس آیا تو طشت والے نے اس انگوئی کو لے کر اس آفتابہ سے سات بار اس کو دھویا۔ اور بچہ کے مونڈھے پر مہر کر دی اور حریر میں اس کو لپیٹ کر مشک خالص کے دھاگے سے باندھ دیا اور تھوڑی دیر تک اپنے بازوؤں میں لپٹائے رکھا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : یہ رضوان جنت تھا، پھر بچے کے کان میں کچھ کہا۔ آمنہ کہتی ہیں : میں اس سے سمجھ نہ سکی۔ اور پھر اس نے کہا۔ اے محمد ! بشارت ہو کہ کسی نبی کو کوئی ایسا علم عطا نہیں کیا گیا۔ جو تم کو نہیں دیا گیا۔ تم سب پیغمبروں سے زیادہ شجاع بنائے گئے۔ تم کو فتح و نصرت کی کنجی دی گئی۔ اور رعب و داب بخشا گیا۔ جو تمہارا نام سنے گا۔ خواہ اس نے تم کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو تو وہ کانپ جائے گا۔ اے اللہ کے خلیفہ۔
تحقیق الحدیث :
اس روایت کا ماخذ یہ ہے کہ یحییٰ بن عائذ المتوفی 378 نے اپنی کتاب ”میلاد “میں اس کا ذکر کیا ہے۔
ابن دحیہ محدث نے بڑی جرأت کر کے اس کو غریب کہا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کو غریب کہنا بھی اس کی توثیق ہے۔ یہ تمام تر بےاصل اور بے بنیاد ہے۔