حرام چیزوں کے حق میں ووٹ دینے کا شرعی حکم

سوال:

اگر کسی جگہ ایسی چیز کے بارے میں ووٹ ڈالے جا رہے ہوں جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے، جیسے شراب یا سود وغیرہ، اور کوئی شخص واضح دلائل کے ساتھ یہ بیان کر دے کہ اسلام نے اس چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ اس کے بعد ووٹ لیا جائے کہ آیا یہ چیز معاشرے میں عام ہونی چاہیے یا نہیں، اور کوئی شخص کہے کہ یہ چیز عام ہونی چاہیے، تو اس کے اسلام کا کیا حکم ہوگا؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

حجت کو بیان کرنا اور دلائل دینا ایک الگ چیز ہے، جبکہ سننے والے کا اسے سمجھنا اور قبول کرنا دوسری چیز ہے۔
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو معاشرے میں بالکل معروف اور واضح ہیں، جیسے شراب، مردار، اور خنزیر، جنہیں اسلام نے دوٹوک انداز میں حرام قرار دیا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ چونکہ اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے، اس لیے اسے عام کر دیا جائے، تو یہ نیا فتنہ کھڑا کرنے کے مترادف ہوگا۔

کیا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؟

کسی مخصوص شخص پر تکفیر (کفر کا فتویٰ) لگانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، اور نہ ہی اس دروازے کو اتنی آسانی سے کھولنا چاہیے۔
البتہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے کا عمومی شرعی حکم واضح کر دینا ضروری ہے۔

شرعی قاعدہ:

"استحلال معصیة ولو کان صغیرۃ کفر”
"گناہ کی چیز کو حلال سمجھنا، چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، یہ کفر کے زمرے میں آتا ہے۔”

اہم نکتہ:

یہ بات پھر دہرائی جاتی ہے کہ کسی مخصوص شخص پر تکفیر کا فتویٰ لگانا ممکن تو ہے لیکن ہر کسی کے اختیار میں نہیں۔
لہٰذا عمومی طور پر دلائل واضح کرنے چاہییں اور حرام چیز کو حلال کرنے کے حکم کو شرعی تناظر میں بیان کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1