حرام آمدنی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا شرعی حکم

سوال:

اگر کسی کے پاس حرام آمدنی غلطی سے آ گئی ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

حرام آمدنی سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے، اور اس سے کسی قسم کے ثواب یا اجر کی نیت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ یہ مال ناجائز طریقے سے حاصل ہوا ہے اور شریعت میں اسے اپنے پاس رکھنے یا ضائع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ درج ذیل نکات میں اس کا حل پیش کیا گیا ہے:

مال کو ضائع نہ کریں:

حرام مال کو جلانا یا پھینک دینا جائز نہیں، کیونکہ اسلام اور قانون دونوں مال کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
اس مال کو کسی جائز مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے، تاکہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔

حرام مال سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقے:

ذمی غیر مسلم کو دینا:
ایسی رقم کسی ذمی غیر مسلم کو دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ فتنہ پرور یا جنگجو نہ ہو۔

مشکل میں مبتلا افراد کی مدد کرنا:
حرام رقم سے ایسے افراد کی مدد کی جا سکتی ہے جو کسی ناجائز یا مشکل مالی مسئلے میں پھنسے ہوئے ہوں، مثلاً سودی لین دین میں مبتلا شخص جو توبہ کرنا چاہتا ہو۔

رفاہ عامہ کے کاموں میں استعمال:
حرام مال کو رفاہ عامہ کے کاموں میں لگا دینا بہتر ہے، جیسے گلیوں یا سڑکوں کی تعمیر، عوامی سہولیات کی فراہمی وغیرہ۔

غیر مسلم کے ظلم کے خلاف استعمال:
ہندوستان کے علماء کی رائے کے مطابق، اگر مسلمانوں پر ظلم کرنے والے غیر مسلموں کے خلاف کسی علاقے میں مالی وسائل کی ضرورت ہو، تو ایسی رقم اس مقصد کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔

نتیجہ:

حرام آمدنی سے جان چھڑانا ضروری ہے، اور اس کے لیے اسے کسی جائز اور مفید مقصد میں لگانا چاہیے۔ اس سے نہ تو کوئی فائدہ اٹھایا جائے اور نہ ہی ثواب کی نیت کی جائے۔

واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1