حدیث ام حرام پر اعتراضات کا مدلل جواب

حدیث کا متن

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر جایا کرتے تھے۔ ام حرام آپ ﷺ کو کھانا کھلاتی تھیں اور آپ ﷺ کے سر میں جوئیں تلاش کرتی تھیں۔ ایک دن آپ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے، کھانا تناول فرمایا اور لیٹ گئے۔ جب بیدار ہوئے تو ہنستے ہوئے جاگے۔ ام حرام نے پوچھا: "یا رسول اللہ! آپ کس وجہ سے ہنسے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: "میں نے اپنی امت کے کچھ افراد کو دیکھا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندر کی پشت پر بادشاہوں کی طرح تختوں پر سوار ہیں۔” ام حرام نے درخواست کی: "یا رسول اللہ! دعا فرمائیں کہ میں ان میں شامل ہو جاؤں۔” آپ ﷺ نے دعا فرمائی۔ بعد میں آپ ﷺ نے دوبارہ یہی بات فرمائی، لیکن کہا: "تم پہلے گروہ میں شامل ہو گی۔” حضرت ام حرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں سمندری جہاد پر روانہ ہوئیں اور واپسی پر سواری سے گر کر شہید ہو گئیں۔
(بخاری، کتاب التعبیر، حدیث نمبر: 6600)

اعتراضات اور جوابات

اعتراض 1: کیا رسول اللہ ﷺ اجنبی عورت کے گھر تنہائی میں جاتے تھے؟

جواب: حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ آپ ﷺ تنہائی میں حضرت ام حرام کے گھر گئے۔ علماء نے واضح کیا ہے کہ یہ بات صرف قیاس ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت آپ ﷺ کے کردار کے خلاف ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے خود فرمایا:
"جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ ملے۔”
(مسند احمد، حدیث: 14651)

یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ام حرام کے گھر دیگر اہل خانہ بھی موجود ہوں جیسے ان کے شوہر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یا حضرت انس۔

دوسری احادیث میں بھی ذکر ہے کہ آپ ﷺ حضرت انس اور ان کی والدہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے جہاں خاندان کے دیگر افراد بھی موجود ہوتے تھے۔
(مسلم، کتاب الصلوۃ)

اعتراض 2: کیا آپ ﷺ نے اجنبی عورت کو چھونے دیا؟

جواب: حضرت ام حرام آپ ﷺ کی محرم تھیں۔ محدثین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ آپ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں۔

علامہ ابن وہب، ابن حجر، اور دیگر محدثین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حضرت ام حرام آپ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں۔
(فتح الباری: 11/87)

رضاعت کے ذریعے محرمیت ثابت ہوتی ہے، اور ایسی صورت میں عورت اور مرد کے درمیان جسمانی تعامل جائز ہوتا ہے۔

اعتراض 3: کیا ام حرام اور رسول اللہ ﷺ کا رضاعی رشتہ ثابت ہے؟

جواب: ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں حضرت انس کی گواہی موجود ہے کہ ام حرام رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خالہ تھیں۔
(تاریخ دمشق، حدیث: 74127)

یہ رضاعی رشتہ مختلف ذرائع سے ثابت ہے، کیونکہ آپ ﷺ کی والدہ یا والد کے ساتھ ام حرام کے خاندان کی رضاعی قرابت داری کا امکان موجود ہے۔

حدیث کی صحت اور محدثین کی رائے

اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم، امام مالک، اور دیگر محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث میں موجود پیشین گوئی، یعنی سمندری جہاد اور اس کی کامیابی، بعد میں مکمل طور پر سچ ثابت ہوئی جو اس حدیث کی صداقت کا ایک اور ثبوت ہے۔

ملحدین اور مستشرقین کے اعتراضات کی حقیقت

اعتراض: "نبی ﷺ کی 9 بیویاں تھیں، پھر اجنبی عورت کے گھر جانے کی ضرورت کیوں؟”

جواب: یہ اعتراض صرف لاعلمی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ نبی ﷺ ام حرام کے گھر جانے کو اجنبی عورت کے گھر جانے سے تعبیر کرنا ان کے ساتھ رشتے کی حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے۔

تمام صحابہ کرام، ازواج مطہرات، اور مدینہ کے لوگ آپ ﷺ کے کردار سے بخوبی واقف تھے، اور کسی نے اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اعتراض: "یہ احادیث بیان کرنے والوں پر حد جاری ہونی چاہیے۔”

جواب: یہ الزام لگانا کہ حدیث کے راوی جھوٹے ہیں، علماء اور محدثین کی محنت و دیانت داری پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
ایسی باتیں کرنے والے دراصل احادیث اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت ام حرام کی شہادت

حضرت ام حرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں سمندری جہاد میں شریک ہوئیں اور واپسی پر حادثے کے نتیجے میں شہید ہوئیں۔ یہ ان کی قربانی اور فضیلت کی دلیل ہے۔

خلاصہ

حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں، اس لیے آپ ﷺ کا ان کے گھر جانا اور ان سے تعامل کسی بھی شرعی اصول کے خلاف نہیں تھا۔
اعتراضات صرف لاعلمی یا بدنیتی پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد اسلام اور نبی کریم ﷺ کی ذات پر شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔

محدثین اور علماء نے ان اعتراضات کا تفصیلی اور واضح جواب دے دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے