حج قران اور حج تمتع میں فرق
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إلَى الْحَجِّ وَأَهْدَى . فَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ . وَبَدَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ ، ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ ، فَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ إلَى الْحَجِّ ، فَكَانَ مِنْ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى ، فَسَاقَ الْهَدْيَ مِنْ الْحُلَيْفَةِ . وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلنَّاسِ: مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى ، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ . وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْدَى فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ ، ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا فَلْيَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إذَا رَجَعَ إلَى أَهْلِهِ فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ . وَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ ، ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنْ السَّبْعِ ، وَمَشَى أَرْبَعَةً ، وَرَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا ، وَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ ، ثُمَّ لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى قَضَى حَجَّهُ ، وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ . وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنْ النَّاسِ } .
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں عمرہ کرنے کے بعد حج کر کے تمتع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ سے اپنے ساتھ قربانی لے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کا احرام باندھا اور پھر حج کا تلبیہ پکارا۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کرنے کے بعد حج کر کے تمتع کیا، بہت سے لوگ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے گئے تھے اور کئی لوگ نہیں بھی لے کر گئے تھے، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو فرمایا: جو شخص قربانی ساتھ لایا ہے اس کے لیے کوئی بھی ایسی چیز حلال نہیں ہو سکتی جو اس پر اس کی (یعنی احرام کی) وجہ سے حرام ہوگئی تھی، اور جو قربانی کا جانور ساتھ لے کر نہیں آیا وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا ومروہ کی سعی کرے اور بال کٹوا کر حلال ہو جائے، پھر وہ حج کا احرام باندھے۔ سو جو شخص قربانی نہ پائے تو وہ دوران حج تین دن کے روزے رکھے اور سات دن کے تب جب وہ اپنے گھر واپس چلا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو سب سے پہلے طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکر عام چال میں لگائے ، پھر جب بیت اللہ کا طواف مکمل کیا تو مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی، چنانچہ سلام پھیرا اور نماز سے فارغ ہوکر صفا پہاڑ پر آئے اورصفاومروہ کے سات چکر لگائے، پھر احرام کے باعث جو بھی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام تھی وہ تب تک حلال نہیں ہوئی جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج پورا نہ کر لیا اور نحر کے دن قربانی کا جانور ذبح نہ کر لیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور بیت اللہ کا طواف افاضہ کر لیا تو پھر ہر وہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ہوگئی جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی، اور جو لوگ اپنے ساتھ قربانی لے کر گئے تھے ، انھوں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
[231 صحيح البخارى، كتاب الحج، باب من ساق البدن معه ، ح: 1606 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب وجوب الدم على المتمتع ، ح 1227]
شرح المفردات:
المقام : اس سے مراد مقام ابراہیم ہے۔
شرح الحديث
امام نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور لفظ تمتع لغوی طور پر مراد لیا گیا ہے، جبکہ اصل میں یہ تمتع نہیں بلکہ قرآن تھا، کیونکہ قران کو بھی تمتع کہہ لیا جا تا ہے، اور اس کا معنی یہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حج کیا اور پھر عمرہ کر کے اسے بھی اس میں شامل کر لیا۔
[شرح مسلم للنووي 608/8]
(232) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب التمتع والاقران والافراد بالحج ، ح: 1491 – صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بيان أن القارن لا يتحلل الا في وقت تحلل الحاج المفرد ، ح: 1229 .

الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ { أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمُتْعَةِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى . فَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَنْزِلْ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهَا ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا حَتَّى مَاتَ . قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ } قَالَ الْبُخَارِيُّ ” يُقَالُ: إنَّهُ عُمَرُ ” . وَلِمُسْلِمٍ { نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتْعَةِ – يَعْنِي مُتْعَةَ الْحَجِّ – وَأَمَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَمْ تَنْزِلْ آيَةٌ تَنْسَخُ آيَةَ مُتْعَةِ الْحَجِّ وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَاتَ } وَلَهُمَا بِمَعْنَاهُ .
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں حج تمتع کی آیت نازل ہوئی تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ حج کیا، نہ تو قرآن (کا کوئی ایسا حکم ) نازل ہوا جو اسے حرام قرار دیتا اور نہ ہی آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے تادم وفات اس سے منع فرمایا ، ایک شخص نے اپنی ہی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وہ شخص عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
مسلم میں یوں ہے کہ آیت متعہ یعنی حج تمتع کی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی ادائیگی کا حکم فرمایا، پھر کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جو حج تمتع کی آیت کو منسوخ کرتی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تادم وفات اس سے منع فرمایا۔ اور بخاری ومسلم میں اس معنی کی روایت ہے۔
(233) صحيح البخارى، كتاب التفسير ، باب فمن تمتع بالعمرة الى الحج ، ح: 4246 – صحيح مسلم، کتاب الحج، باب في نسخ التحلل من الاحرام والأمر بالتمام ، ح: 1226 .
شرح المفردات:
المتعة: اس سے مراد حج تمتع ہے۔
شرح الحدیث:
حدیث میں مذکور شخص سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ [فتح الباري لابن حجر: 432/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!