اسلام میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے روزے میں نرمی
اسلام نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے روزے کے معاملے میں نرمی رکھی ہے، کیونکہ ان کی جسمانی حالت عام افراد سے مختلف ہوتی ہے۔ اگر روزہ رکھنے سے ماں یا بچے کی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو شریعت میں ان کے لیے رعایت موجود ہے۔
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًۭا فَهُوَ خَيْرٌۭ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا۟ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ”
(سورۃ البقرہ: 184)
ترجمہ:
"اور جو لوگ (شدید مشقت کے سبب روزہ نہ رکھ سکیں) وہ فدیہ دیں، ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔ اور جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اور روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تمہیں علم ہو۔”
علماء کے مطابق، اس آیت میں ابتدائی طور پر ان افراد کو رخصت دی گئی تھی جو کمزور تھے اور روزہ رکھنے میں شدید مشقت محسوس کرتے تھے۔ مشہور صحابی عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین بھی اس حکم میں شامل ہیں۔ اگر انہیں روزہ رکھنے میں دشواری ہو تو وہ فدیہ ادا کر سکتی ہیں۔
احادیث کی روشنی میں
(1) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے رخصت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ ٱلْمُسَافِرِ ٱلصَّوْمَ وَشَطْرَ ٱلصَّلَاةِ، وَعَنِ ٱلْحُبْلَىٰ وَٱلْمُرْضِعِ”
(سنن ابوداؤد: 2408، سنن نسائی: 2315، مسند احمد: 19360)
ترجمہ:
"بے شک، اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے روزے کو نصف کر دیا اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزے کو معاف کر دیا۔”
یہ حدیث واضح طور پر حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے سہولت کو بیان کرتی ہے کہ وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں، اگر ان کے لیے مشکل ہو۔
(2) قضا یا فدیہ؟
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"إِذَا خَافَتِ ٱلْحَامِلُ عَلَىٰ نَفْسِهَا، وَٱلْمُرْضِعُ عَلَىٰ وَلَدِهَا فِى ٱلصَّوْمِ، أَفْطَرَتْ وَأَطْعَمَتْ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًۭا وَلَا تَقْضِى”
(سنن دارقطنی: 2317، مصنف ابن ابی شیبہ: 9137)
ترجمہ:
"اگر حاملہ عورت کو اپنے آپ پر خوف ہو، یا دودھ پلانے والی عورت کو اپنے بچے پر خوف ہو، تو وہ روزہ چھوڑ دے اور ہر روز کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اور ان پر قضا نہیں۔”
یہ اثر اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت پر روزے کی قضا لازم نہیں، بلکہ وہ فدیہ دے سکتی ہیں۔
صحابہ کرامؓ کا فہم
ابن عمرؓ کا فتویٰ
عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ نہ رکھ سکیں تو کیا کریں؟
انہوں نے فرمایا:
"تُفْطِرُ وَتُطْعِمُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًۭا”
(سنن دارقطنی: 2318)
ترجمہ:
"وہ روزہ چھوڑ دیں اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔”
ابن عباسؓ کا فتویٰ
ابن عباسؓ نے فرمایا:
"إِذَا خَافَتِ ٱلْحَامِلُ أَوِ ٱلْمُرْضِعُ، أَفْطَرَتْ وَأَطْعَمَتْ وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهَا”
(تفسیر ابن کثیر، سورۃ البقرہ 184)
ترجمہ:
"اگر حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت روزے سے بچے یا اپنی صحت کے متعلق خوف محسوس کرے، تو وہ روزہ چھوڑ دے اور ہر دن کے بدلے فدیہ دے۔ ان پر قضا نہیں ہے۔”
4. خلاصہ و نتیجہ
اگر حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو روزہ رکھنے میں کوئی پریشانی نہ ہو، تو روزہ رکھنا افضل ہے۔
اگر روزہ رکھنے سے ماں یا بچے کی صحت کو نقصان کا اندیشہ ہو، تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے۔
اس کے بدلے میں دو آراء پائی جاتی ہیں:
➤ کچھ علماء (ابن عباسؓ، ابن عمرؓ، حسن بصری، عطاء، سعید بن جبیر رحمہم اللہ) کے مطابق:
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت پر قضا لازم نہیں، بلکہ وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے (فدیہ دے)۔
➤ دیگر علماء (امام شافعی، امام احمد، امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ) کے مطابق:
بعد میں قضا رکھنا ضروری ہے۔
آج کے علماء میں بھی دونوں آراء موجود ہیں۔ اگر عورت پر روزے کی قضا رکھنا مشکل ہو (مثلاً، ہر سال حمل یا دودھ پلانے کا سلسلہ چل رہا ہو)، تو فدیہ دینا زیادہ مناسب ہوگا۔
اگر عورت کو بعد میں روزے رکھنے کا موقع ملے تو رکھنا بہتر ہے، لیکن اگر مشقت ہو تو فدیہ دینا کافی ہے۔
یہی قرآن، حدیث اور صحابہ کرامؓ کے فہم کے مطابق درست اور متوازن رائے ہے۔