حارث بن کلدہ اور نبی ﷺ کے علم طب پر اعتراض کا تجزیہ

حارث بن کلدہ کی شخصیت کا تعارف

حارث بن کلدہ چھٹی صدی کے ایک مشہور طبیب تھے جو طائف کے قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ بعض مورخین کے مطابق، وہ ایران کے شہر گندی‌شاپور میں موجود ایک مشہور طبی مدرسہ سے تعلیم یافتہ تھے، جہاں یونانی، ہندی اور ایرانی طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔

[M. Z. Siddiqi. Studies in Arabic and Persian Medical Literature. Calcutta University. 1959, pages 6–7]

گندی‌شاپور کے بارے میں مورخین کے خیالات

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اسلامی اور یونانی طب کے درمیان تعلق سکندریہ کے بجائے ساسانی دور کی گندی‌شاپور اکیڈمی سے پیدا ہوا، کیونکہ یہ مرکز اپنے عروج پر تھا جب اسلام دنیا میں آیا۔

[H. Bailey (ed). Cambridge History of Iran, vol. 4. Cambridge University Press 1975, pages 414]

دعویٰ: حضور اکرم ﷺ نے حارث بن کلدہ سے طبی مشاورت لی

کچھ مبصرین نے یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حارث بن کلدہ سے یونانی طب کے ماخذ (ارسطو اور جالینوس) کے نظریات اور انسانی جنین (Embryology) کے متعلق علم حاصل کیا۔

[A. A. Khairallah. Outline of Arabic Contributions to Medicine. American Press, Beirut. 1946, page 22]

اعتراضات کا جائزہ اور جوابات

1. تاریخی شواہد کی عدم موجودگی

یہ دعویٰ کہ حضور اکرم ﷺ نے حارث بن کلدہ سے علم حاصل کیا، کسی مستند تاریخی دلیل سے ثابت نہیں ہوتا۔ ایسی کوئی روایت موجود نہیں جو یہ ظاہر کرے کہ نبی کریم ﷺ نے انسانی جنین یا طب کے بارے میں اپنی معلومات حارث بن کلدہ سے حاصل کیں۔

ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری دعویٰ کرنے والے پر ہے، اور ایسا کوئی براہ راست ثبوت موجود نہیں ہے۔

2. نبی کریم ﷺ کی صداقت اور اخلاقی کردار

حضور اکرم ﷺ کا کردار اور صداقت تاریخی حوالوں سے ثابت شدہ ہے۔ آپ ﷺ کے دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔

[Martin Lings. Muhammad: His Life Based on the Earliest Sources. The Islamic Texts Society. 1983, page 34]

آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں جھوٹ بولنے سے ہمیشہ اجتناب کیا اور دنیاوی فائدے کے لیے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ ﷺ نے دولت، اقتدار اور دیگر دنیاوی پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور اپنے پیغام کی خاطر مظالم برداشت کیے۔

[W. Montgomery Watt. Muhammad at Mecca. Oxford. 1953, pages 52–79]

3. گندی‌شاپور کی حقیقت

گندی‌شاپور کے میڈیکل سکول کے وجود پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق، اس طرح کے کسی مرکز کے واضح شواہد موجود نہیں ہیں۔

[David C. Lindberg. The Beginnings of Western Science. University of Chicago Press. 1992, pages 164–165]
[Roy Porter. The Greatest Benefit to Mankind: A Medical History of Humanity. Fontana Press. 1999, page 94]

4. حارث بن کلدہ کا مشکوک کردار

کچھ محققین، جیسے مانفرڈ المن اور فرانز روزنتھل، حارث بن کلدہ کو ایک افسانوی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، حارث کا کردار زیادہ تر تخیلاتی معلوم ہوتا ہے۔

[M. Ullman. Die Medizin im Islam. Leiden ad Cologne. 1970, pages 19-20]

5. قرآنی آیات کا نزول حارث سے ملاقات سے پہلے

قرآن کی سورۃ المؤمنون، جس میں انسانی جنین کے مراحل کا ذکر ہے، مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، جبکہ حارث بن کلدہ سے نبی کریم ﷺ کی ملاقات کا امکان اس وقت ممکن ہوا جب طائف فتح ہوا۔

[The Qur’an: A New Translation. Oxford University Press. 2005, page 215]

6. حارث بن کلدہ کے قبولِ اسلام کا ذکر

کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق، حارث بن کلدہ نے اسلام قبول کیا اور نبی کریم ﷺ کے صحابی بنے۔

[William Charles Brice. An Historical Atlas of Islam. Brill. 1981, page 355]
[Abubakr Asadulla. Islam vs. West: Fact or Fiction?. iUniverse. 2009, page 76]

7. نبی کریم ﷺ کی صداقت اور قرآن کا اعجاز

حارث بن کلدہ کے علم کو نقل کرنے کا دعویٰ اس وقت مزید بےبنیاد معلوم ہوتا ہے جب قرآن کی فصاحت و بلاغت اور علمی اعجاز کو دیکھا جائے۔

[Tabari. Ta’rikh al-rusul wa’l-muluk. Leiden, 1879–1901, page 1116]

8. یونانی علم اور حارث کا غیر یقینی تعلق

حارث بن کلدہ کا یونانی علم طب سے تعلق اور اس کا براہِ راست اثر اسلامی تعلیمات پر کسی قابلِ اعتماد تاریخی ذریعہ سے ثابت نہیں ہوتا۔

[Plinio Prioreschi. A History of Medicine. 2001, page 369]

نتیجہ

مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ حارث بن کلدہ کے علم کو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرنا یا یہ دعویٰ کرنا کہ آپ ﷺ نے ان سے طب کے متعلق کوئی معلومات حاصل کیں، بےبنیاد اور غیر معتبر ہے۔ نہ تو حارث بن کلدہ کا کردار مستند طور پر ثابت ہے اور نہ ہی اس کا قرآن کے نزول یا نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے کوئی تعلق۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے