جنین کے ساقط ہونے کے بعد خون کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

بعض عورتیں کسی عارضہ کے سبب جنین کے سقوط کا شکار ہو جاتی ہیں ، اور حمل میں پلنے والے بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جن کی خلقت مکمل ہوتی ہے اور بعض کی خلقت ابھی تک مکمل نہیں ہوتی ، میں ان دونوں حالتوں میں نماز کے معاملہ کی وضاحت چاہتی ہوں ؟

جواب :

جب عورت ایسے بچے کو ساقط کرے جس میں انسانی خلقت ظاہر ہو چکی ہو ، سر یا ہاتھ یا پاؤں یا دیگر اعضاء بن چکے ہوں تو وہ عورت نفاس والی ہوگی اور اس پر نفاس کے احکام لاگو ہوں گے وہ نماز پڑھے گی ، نہ روزہ رکھے گی اور نہ ہی اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا حلال ہو گا تاوقتیکہ وہ پاک ہو جائے یا چالیس دن مکمل کر لے ۔ اور جب وہ چالیس دن سے پہلے ہو جائے تو اس پر غسل طہارت کر کے نماز ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا واجب ہے ، اور اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا بھی حلال ہے ۔
اور نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں ہے ، اگر ولادت کے بعد دس دن یا اس سے کم یا زیادہ دنوں میں عورت پاک ہو جائے تو اس پر غسل کرنا واجب ہو گا اور اس پر پاک عورتوں کے احکام جاری ہوں گے ، جیسا کہ پہلے گزرا ۔ اور چالیس دن کے بعد جو خون وہ دیکھے وہ فاسد خون ہو گا وہ اس کے دوران روزے رکھتی رہے ، نماز پڑھتی رہے اور اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا حلال ہوگا ، اور اس پر لازم ہے کہ وہ مستحاضہ کی طرح ہر نماز کے وقت وضو کرے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی حبیش کو جو مستحاضہ تھیں فرمایا :
ته ضئي لوقت كل صلاة [ صحيح البخاري ، رقم الحديث 226 صحيح مسلم ، رقم الحديث 333 ]
’’ ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرو“
اور جب چالیس دن کی مدت گزرنے کے بعد حیض شروع ہو جائے یعنی ایام ماہواری شروع ہو جائیں تو عورت کے لیے حائضہ کا حکم ہوگا اور اس پر پاک ہونے تک نماز اور روزہ حرام ہوگا اور اس دوران اس کے خاوند پر اس سے جماع کرنا بھی حرام ہو گا ۔
لیکن جب عورت سے ساقط ہونے والے بچے میں انسانی خلقت ظاہر نہ ہوئی ہو ، مثلاًً وہ ابھی گوشت کا لوتھڑا ہو اس میں کوئی انسانی شکل نہ پائی جائے ، یا بچہ بھی خون کی شکل میں ہو تو وہ عورت مستحاضہ کے حکم میں ہو گی ، نہ اس پر نفاس کا حکم لگے گا اور نہ ہی حیض کا ، اور اس پر لازم ہے کہ وہ نماز ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے ، اور اس کے خاوند کے لیے اس سے جماع کرنا حلال ہوگا ، اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہر نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرے اور خون سے بچنے کے لیے روئی وغیرہ استعمال کرے جس طرح مستحاضہ کیا کرتی ہے ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے ۔
اس کے لیے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا بھی جائز ہے ، وہ اس طرح کہ ظہر و عصر کے ساتھ اور مغرب و عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کر لے اور اس کے لیے ان دو دو نمازوں کے لیے غسل کرنا مشروع ہے اور ایک غسل فجر کے لیے ۔ اس کی دلیل حمنہ بنت جحش سے ثابت صحیح حدیث ہے ، کیونکہ یہ مذکورہ عورت اہل علم کے نزدیک مستحاضہ کے حکم میں ہے ۔ واللہ ولی التوفیق
( عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے