سوال
جنازہ جلدی کرنے کا کیا مطلب ہے؟
جواب
جنازہ جلدی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان شخص فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور تاخیر نہیں کرنی چاہئے، اور جب جنازہ پڑھ لیا جائے تو اسے فوراً دفن کر دینا چاہئے۔ اس عمل کی تاکید احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
حدیث 1: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نصیحت
نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرمائی:
«ثَلاثٌ لا تُؤَخِّرْهَا : الصَّلاةُ إِذَا حَانَتْ , وَالْجَنَازةُ إِذَا حَضَرَتْ , وَالأَيِّمُ وَإِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا »
’’تین چیزوں کو دیر نہ کرو: نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ کو جب وہ تیار ہو جائے، اور لڑکی کی شادی کو جب اس کے لئے مناسب رشتہ مل جائے۔‘‘
سنن الترمذی/الصلاة 127 (171)، (تحفة الأشراف: 10251)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/105، 10251)
حدیث 2: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«أَسْرِعُوا بِالجَنَازَةِ، فَإنْ تَكُ صَالِحَةً، فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا إلَيْهِ، وَإنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ. متفق عليه.»
’’تم جنازہ کے ساتھ جلدی کرو، کیونکہ اگر وہ نیک شخص ہے تو جہاں تم اسے لے کر جا رہے ہو، وہ جگہ اس کے لئے بہترین ہے۔ اور اگر وہ نیک نہیں ہے تو تم ایک بوجھ کو جلدی سے اپنے کندھوں سے اتار دو۔‘‘
[صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1315]
خلاصہ
جنازہ جلدی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میت کی نماز جنازہ اور تدفین میں دیر نہ کی جائے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک شخص کو جلدی اس کی منزل تک پہنچانا بہتر ہے، جبکہ غیر نیک میت کو کندھوں سے بوجھ کے طور پر اتار دینا زیادہ مناسب ہے۔