یونانی مفکرین کا جمہوریت پر تنقیدی جائزہ
یونانی فلسفی، خاص طور پر افلاطون اور ارسطو، جمہوریت کے خلاف تھے اور اسے اخلاقی اور اقداری بنیادوں پر رد کرتے تھے۔
افلاطون کا جمہوریت پر تنقیدی نقطہ نظر
- افلاطون کا خیال تھا کہ جمہوریت عام افراد کی رائے پر چلتی ہے، جو حقیقی اور ابدی حقائق تک رسائی نہیں رکھتے۔
- افلاطون نے اپنے نظریۂ امثال کے ذریعے کہا کہ حقیقی حقائق تک صرف فلسفیوں کو رسائی حاصل ہو سکتی ہے، اس لیے حکومت فلسفیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
- اس کے نزدیک جمہوریت میں عوامی رائے اور ذاتی خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے، جو اخلاقی اقدار کے زوال کا سبب بنتا ہے۔
ارسطو کا جمہوریت پر تنقیدی نقطہ نظر
- جمہوریت میں اکثریتی فیصلے ناقص اور غیرمستحکم ہوتے ہیں۔
- سیاسی عدم استحکام کو فروغ ملتا ہے۔
- اخلاقی اقدار تنزلی کا شکار ہوتی ہیں۔
- اکثریتی آمریت اور بے راہ روی جنم لیتی ہے۔
- چند چالاک افراد اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔
کلاسیکی مفکرین: روسو اور جان اسٹوراٹ مل
روسو کا تصور جمہوریت
روسو کے نزدیک انسان فطری طور پر نیک ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی فطرت کے قریب رہے تو بہتر فیصلے کر سکتا ہے۔
- اس نے معاہدہ عمرانی کے تصور کے تحت کہا کہ جمہوریت میں افراد اپنی اجتماعی فلاح کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔
- روسو کے مطابق جمہوریت چھوٹے ریاستی نظام میں بہتر کام کرتی ہے، اور ارادۂ اجتماعی کے ذریعے انسان حقیقی آزادی حاصل کر سکتا ہے۔
جان اسٹوراٹ مل کا تصور جمہوریت
- مل کے نزدیک جمہوریت ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ ہے جہاں انفرادی آزادی اور حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
- وہ سمجھتا تھا کہ جمہوریت ہر معاشرے میں قابل عمل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ ضروری ہے۔
- مل نے جمہوریت میں مساوات، سیاسی تربیت اور فلاح عامہ پر زور دیا، لیکن اکثریتی آمریت کے خطرے سے خبردار کیا اور تناسبی نمایندگی کی تجویز دی۔
جمہوریت اور اس کے بنیادی ادارے
- رائے دہندگی: جمہوری نظام میں ہر فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے رائے دے۔ اس سے انسان کے اندر خودغرضی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اجتماعیت کی بنیاد محبت کے بجائے اغراض اور مفادات پر رکھی جاتی ہے۔
- نمایندگی کا تصور: نمایندگی کا نظام اس بنیاد پر قائم ہے کہ رائے دہندگان اپنے مفادات کے محافظ نمایندگان منتخب کریں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مکار اور چالاک افراد اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اور صالح افراد کی قدر کم ہو جاتی ہے۔
- بیوروکریسی اور ٹیکنوکریسی: جمہوری نظام میں بیوروکریسی اور ٹیکنوکریسی مضبوط ہو جاتی ہے، کیونکہ معاشرتی اقدار کی بجائے صرف مادی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔
- معاشرتی تفاوت: جمہوریت میں عوام اور مقتدرین کے درمیان فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ عوام زیادہ سے زیادہ ذاتی اغراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جبکہ قیادت صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔
جمہوریت کی اخلاقی اور روحانی تنقید
جمہوری نظام میں جو شخصیت پروان چڑھتی ہے، وہ خودغرضی، نفس پرستی اور مفاد پرستی سے بھرپور ہوتی ہے۔
- جمہوریت فرد کو خودمختار بناتی ہے، جو اپنی خواہشات کو خیر و شر کا پیمانہ بناتا ہے۔
- جمہوری معاشرے میں خاندانی نظام تباہ ہوتا ہے، کیونکہ محبت اور ایثار کے بجائے خودغرضی اور ذاتی آزادی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اسلامی تنقید اور انقلابی نقطہ نظر
اسلامی نقطہ نظر سے جمہوریت کو اس لیے مسترد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کو نفس کا غلام بناتی ہے جبکہ اسلام انسان کو اللہ کا بندہ بنانا چاہتا ہے۔
- اسلامی نظام میں محبت، ایثار اور خدا سے تعلق بنیادی اقدار ہیں، جبکہ جمہوریت میں غرض اور خواہشات مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔
- اسلامی انقلابی جدوجہد کا مقصد جمہوری نظام کو ختم کرکے ایسا نظام قائم کرنا ہے جو انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کرے۔
نتیجہ
جمہوریت کے ادارے، اس کے نظریات اور اس کے عمل میں واضح تضادات ہیں۔ یہ نظام صرف لبرل اقدار کی ترویج کرتا ہے اور اسلامی اصولوں سے متصادم ہے۔ اس لیے، اسلامی انقلابی نقطہ نظر جمہوریت میں اصلاح کی بجائے اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی حمایت کرتا ہے تاکہ ایک ایسا نظام قائم ہو جو خدا اور اس کی مرضی کے مطابق انسان کو ترقی دے۔