جمعہ کی نماز بغیر اقامت کے ادا ہونے کا حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب الاذان، صفحہ251

سوال:

جمعہ کی نماز اگر بغیر اقامت کے ادا کی جائے تو کیا وہ درست ہوگی؟ اور اگر ایسا ہو چکا ہو تو کیا نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز باجماعت کے لیے اذان اور اقامت ضروری ہیں، خواہ نماز کسی گاؤں، شہر یا جنگل میں ادا کی جا رہی ہو۔ اس کا ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور احادیث سے ملتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم”
"تم میں سے ایک اذان کہے اور سب سے بڑا امامت کرائے۔”
(صحیح البخاری: 628، صحیح مسلم: 674)

اذان اور اقامت شعائر اسلام میں شامل ہیں اور ان کا التزام ضروری ہے۔ تاہم، میرے علم میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ اگر اذان یا اقامت سہواً یا عمداً ترک ہو جائے تو نماز ہی باطل ہو جاتی ہے۔

بغیر اقامت کے نماز پڑھنے کا حکم

اگر کوئی جان بوجھ کر اذان اور اقامت ترک کر دے تو یہ احادیث صحیحہ اور شعائر اسلام کی مخالفت کی بنا پر انتہائی مذموم عمل ہے۔ تاہم، اگر کسی سے یہ عمل بھول کر ہو جائے تو نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔

تابعین کے اقوال:

مختلف تابعین کا اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ہے:

◄ عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر اقامت بھول جائے تو نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔
(مصنف عبدالرزاق 1/511، حدیث 1958، مصنف ابن ابی شیبہ 1/218، حدیث 2272، سند صحیح 2274، 2275)

◄ مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے کہ اقامت نہ ہونے کی صورت میں نماز لوٹائی جائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/218، حدیث 2273، سند صحیح)

◄ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق اقامت بھول جانے کی صورت میں نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/218، حدیث 2271، سند صحیح)

راجح موقف:

ان مختلف اقوال میں سے زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر اقامت چھوڑ دی گئی ہو تو نماز صحیح ہے اور اس کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

(شہادت، دسمبر 2003ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1