جماعت التکفیر والہجرۃ کی انتہاپسند فکر کا جائزہ

تعارف

یہ مضمون مصر کی مشہور جماعت "جماعۃ التکفیر والہجرۃ” کے نظریات، تاریخی پس منظر اور اس کے افکار کی وضاحت پر مبنی ہے۔ یہ مضمون انسائیکلوپیڈیا ’’الموسوعۃ المیسرۃ فی الأدیان والمذاھب والأحزاب المعاصرۃ‘‘ سے لیا گیا اور اردو قارئین کے لیے سہ ماہی ’’ایقاظ‘‘ میں پیش کیا گیا۔

جماعت کا پس منظر اور قیام

نام: یہ جماعت اپنے لیے "جماعۃ المسلمین” کا نام استعمال کرتی تھی، جبکہ ذرائع ابلاغ میں اسے "جماعۃ التکفیر والہجرۃ” کہا جاتا ہے۔
بنیاد: یہ ایک شدت پسند گروہ ہے جو معصیت (گناہ) کی بنیاد پر لوگوں کی تکفیر (کفر کا فتویٰ دینا) میں خوارج کے طرزِ فکر کو اپناتا ہے۔
ابتدا: 1965ء کے بعد مصر کی جیلوں میں یہ جماعت تشکیل پائی۔ سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی پھانسی کے واقعات اور جمال عبدالناصر کے حکم پر ہونے والے ظلم و ستم نے اس جماعت کے نظریات کو شدت بخشی۔
غلو کا آغاز: جیلوں میں مسلمان قیدیوں پر کیے گئے مظالم اور سختیوں نے انتہاپسندانہ فکر کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں "تکفیر” کا رجحان پروان چڑھا۔

جماعت کی تشکیل اور اہم شخصیات

شیخ علی اسماعیل

پس منظر: شیخ علی اسماعیل جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل اور سید قطب کے قریبی ساتھی شیخ عبد الفتاح اسماعیل کے بھائی تھے۔
کردار: انہوں نے جماعت کے تکفیری نظریات کو شرعی بنیادیں فراہم کیں۔ تاہم بعد میں وہ اپنے نظریات سے تائب ہوگئے اور ان سے براءت کا اعلان کیا۔

شکری مصطفی (ابو سعد)

پیدائش: 1942ء، صوبہ اسیوط، مصر۔
رہنمائی: شیخ علی اسماعیل کے تائب ہونے کے بعد شکری مصطفی کو جماعت کی قیادت ملی۔ انہوں نے جماعت کی تنظیم نو کی اور مختلف علاقوں میں اپنے پیروکار مقرر کیے۔
اعمال:
◄ پیروکاروں کو "ہجرت” کا حکم دیا، یعنی جاہلی معاشرے سے علیحدگی اختیار کرنا۔
◄ خفیہ مراکز قائم کیے۔
◄ اپنی قیادت کو "امیر المؤمنین” اور "امام” تسلیم کروایا۔
مقدمات اور انجام: 1977ء میں مصری حکام نے شکری مصطفی سمیت جماعت کے پانچ رہنماؤں کو پھانسی دے دی، اور بعد میں جماعت نے زیرزمین خفیہ سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

جماعت التکفیر کے عقائد اور نظریات

تکفیر:
◄ ہر کبیرہ گناہ کرنے والا، توبہ نہ کرنے کی صورت میں کافر ہے۔
◄ جو حکمران "ما انزل اللہ” کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ مطلقاً کافر ہیں۔
◄ علماء پر کفر کا فتویٰ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کی تکفیر نہیں کرتے۔
◄ جو شخص جماعت کے نظریات کو نہ مانے، وہ کافر ہے۔

ہجرت:
◄ جاہلی معاشرے سے علیحدگی ضروری ہے۔
"جماعۃ المسلمین” کے ماحول میں زندگی گزارنا فرض ہے۔
◄ موجودہ دور کے معاشرے جاہلی معاشرے ہیں۔

شعوری علیحدگی:
◄ دورِ استضعاف (کمزوری کے دور) میں جہاد سے گریز کرنا اور جماعتی وفاداری کو بڑھانا ضروری ہے۔

دیگر عقائد:
◄ تقلید کو شرک سمجھتے ہیں اور کسی بھی اسلامی امام یا عالم کے اجماع کو نہیں مانتے۔
◄ صحابہ کرام کے اقوال و افعال کو بھی حجت تسلیم نہیں کرتے۔
◄ عام مساجد کو "مسجد ضرار” قرار دیتے ہیں اور ان میں نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں، سوائے مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد قباء اور مسجد اقصیٰ کے۔
◄ ناخواندگی کو فروغ دیتے ہیں اور تمام تعلیمی اداروں کو طاغوتی قرار دیتے ہیں۔
◄ جماعت کے امیر کو مہدی منتظر تصور کرتے ہیں۔
"ذکریات مع جماعۃ المسلمین – التکفیر والہجرۃ” ان کی نظریاتی کتاب ہے۔

مصری حکام کی کاروائی اور جماعت کا زوال

وزیر اوقاف کا قتل: جماعت نے مصر کے وزیر اوقاف شیخ حسین ذہبی کو اغوا اور قتل کیا، جس کے بعد مصری حکام نے سخت کارروائی کی۔
پھانسی: شکری مصطفی سمیت جماعت کے مرکزی رہنماؤں کو 1978ء میں پھانسی دے دی گئی۔
اصلاحی سرگرمیاں: جیلوں میں سلفی علماء کی کاوشوں سے کئی تکفیری نظریات کے حامل افراد نے توبہ کی اور جماعت کمزور پڑ گئی۔

نتیجہ

"جماعۃ التکفیر والہجرۃ” ایک انتہاپسند جماعت تھی جس نے غلو، تکفیر اور علیحدگی پسندی کو فروغ دیا۔ ان کے نظریات خوارج کے نظریات سے مشابہت رکھتے تھے اور انہوں نے اسلام کے نام پر ایسی شدت پسندی کو پروان چڑھایا جو اسلام کے حقیقی پیغام سے متصادم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1